لکھنؤ(نامہ نگار)حکومت چاہے تو آسانی سے صارفین کی بجلی شرح ۲۰سے ۲۵فیصدی تک کم کر سکتی ہے۔ اگر حکومت الیکٹری سٹی ڈیوٹی کی شرح میں سالانہ ۱۱۰۰کروڑ روپئے وصول کر رہی ہے تو اسے سبسڈی کی شکل میں کارپوریشن کو واپس کر دے تو شرح بڑی آسانی سے کم ہو سکتی ہے۔ صارفین سے وصول کی جانے والی ۱۱۰۰کروڑ روپئے کی رقم پاورکارپوریشن کے کھاتے میں نہیں بلکہ حکومت کے کھاتے میں جا رہی ہے۔
ریاست کے عوام کو بجلی شرح کو کم کرنے کیلئے ایک دیگر راستہ دکھاتے ہوئے ریاستی بجلی صارفین کونسل نے حال ہی میں بڑھائی گئی الیکٹری سٹی ڈیوٹی کو ختم کرنے یا کم کرنے کی بھی تجویز پیش کی۔ صارفین کونسل کا کہنا ہے کہ اس بجلی شرح کو گھٹانے میں حکومت اگر مذکورہ تجویز کو تسلیم کر لیتی ہے تو اس پر کوئی اضافی بوجھ نہیں بڑھے گا بلکہ عوام کو راحت ضرور ملے گی۔
کونسل نے بتایا کہ دیہی گھریلوصارفین سے ۱۶۰۰کروڑ روپئے ، شہری گھریلو صارفین سے ۶۲۰۰ کروڑ روپئے اور شہری گھریلو لائف لائن صارفین سے ۲۵۰کروڑ روپئے موجودہ شرح کے حساب سے وصول کیا جا رہا ہے۔ جس میں ۲۵فیصدی کمی سبسڈی کی شکل میں کی گئی جو بالترتیب ۴۵۰کروڑ روپئے، ۱۵۵۰کروڑ روپئے اور ۶۲کروڑ روپئے ہے۔
صارفین کونسل کے صدر اودھیش کمار ورما کا کہنا ہے کہ موجودہ الیکٹری سٹی ڈیوٹی کی شکل میں حکومت کو ۱۱۰۰کروڑ روپئے اور ریگولیٹری سرچارج کی شکل میں تقریباً ۹۰۰ کروڑروپئے سالانہ ملتے ہیں۔ یہ ریوینو وصولی یونٹ کی بلنگ سے الگ ہوتی ہے جو حکومت کے کھاتے میں جمع کی جاتی ہے۔ حکومت چاہے تو الیکٹری سٹی ڈیوٹی کی پوری رقم کو گھریلو بجلی صارفین کیلئے سبسڈی کی شکل میں جمع کرے تو شرح میں فوری طور پر ۲۰فیصد تک کی کمی ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری محکموں پر بجلی کمپنیوں کا دس ہزار کروڑ روپئے بقایہ ہے۔ اس کی ایک چوتھائی وصولی بھی عوام کو راحت دلانے میں کافی معاون ہوگی۔ مسٹرورما کا کہنا ہے کہ ایف آر پی کے تحت ۱۴-۲۰۱۳ء میں بجلی کمپنیوں کے ذریعہ ۵فیصد لائن کے نقصانات میں کمی کا ہدف رکھا گیا تھا۔ موجودہ وقت میں لائن خسارہ میں کمی کے باوجود بجلی کمپنیوں کو ۱۵۰۰کروڑ روپئے کی بچت ہو چکی ہے۔ جس کے پیش نظر حکومت کو بجلی شرح میں چھوٹ دینے میں کوئی خاص دشواری نہ ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ افسران کی فضول خرچی کو قابو میں رکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بجلی کمپنیوں میں فضول خرچی اور ٹھیکیداری نظام پر پابندی لگا دی جائے تو ایک ہزار کروڑ روپیہ کم ہو سکتا ہے۔