لندن ۔ ایران کے سابق صدر اور گارڈین کونسل کے چیئرمین علی اکبر ھاشمی رفسنجانی نے کہا ہے کہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای جوہری تنازع بارے عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی لمحہ بہ لمحہ نگرانی کرتے رہے ہیں۔
سابق صدر نے اپنے ایک بیان ایرانی ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مرشد اعلٰی جوہری مذاکرات بارے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کی پالیسی کے خلاف تھے۔ ڈاکٹر رفسنجانی نے کہا کہ مرشد اعلیٰ خود مذاکرات کو مسلسل مانیٹر کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم لیڈر نےمذاکرات سے قبل، دوران مذاکرات اور اس کے بعد بھی ایرانی مذاکرات کاروں کو اپنی ہر ممکن معاونت کا یقین دلایا تھا، تاہم ولایت فقیہ کے بعض انتہا پسند پیروکاروں کی جانب سے ملک میں مایوسی پھیلاتے ہوئے مرشد اعلیٰ کو مذاکرات کا مخالف باور کرایا جاتا رہا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ دسمبرمیں ایران اور چھ بڑی طاقتوں کے درمیان تہران کے جوہری پروگرام پر ہونے والی ڈیل کے خلاف ایران کے شدت پسند حلقے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے اصلاح پسند صدر ڈاکٹر روحانی اور مرشد اعلیٰ کےخلاف بھی احتجاج کیا تھا۔
ایران کی مجلس شوریٰ کے ایک سخت گیر رُکن جواد قدوسی کریمی نے گذشتہ ہفتے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ “خامنہ ای کا جنیوا میں طے پائے جوہری معاہدے کے بارے میں موقف صدر روحانی کے موقف سے مختلف تھا کیونکہ مرشد اعلیٰ نے یورنیم افزودگی کی مقدار کم کرنے کے معاہدے کو ایران کی حق تلفی قرار دیا تھا”۔
آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانب سے جواد قدوسی کے بیان پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم سابق صدر علی اکبر ھاشمی رفسنجانی نے کہا کہ قدوسی جیسے عناصر ہی ملک میں مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ اس نوعیت کے متنازعہ بیانات سے قومی مفادات کے لیے ہونے والی سفارتی مساعی کو ناکام بنانے کی سازش کی جاتی رہی ہے”۔