نیویارک ۔؛
اقوام متحدہ کے ایک تازہ جاری کردہ جائزے کے مطابق شام میں خانہ جنگی کی وجہ سے تیس فیصد باشندے اپنے گھروں کو چھوڑ کر دوسری جگہوں یا ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
ایک عالمی خبر رساں ادارے نے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر دنیا بھر میں کام کرنے والے شعبے کے سربراہ ویلری آموس نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ 65 لاکھ شامی باشندے اپنے گھر چھوڑ کر دوسری جگہوں پر بے گھری کی زندگی گزار رہے ہیں ، جبکہ 93 لاکھ ایسے شامی ہیں جنہیں گھروں سے دور اپنی زندگی گزارنے کیلیے معاونت اور امداد کی ضرورت ہے۔
اس جائزے کے مطابق ہمسائے ممالک میں نقل مکانی کرنے والے اہل شام کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ پڑوسی ملکوں پر معاشی دباو پڑھ رہا ہے۔
اس بارے میں اردن کی حالت زیادہ خراب ہے اور اردنی حکومت کا کہنا ہے اسے پہلے ہی فراہمی آب، بجلی کی ٹرانسمیشن، تعلیم اور ہاوسنگ کے شعبے میں مسائل کا سامنا ہے ۔نیز اردن کے عوام بے روزگاری ایسے مسائل کا سامنا ہے۔
اردن کے شاہ عبداللہ دوم کا اس بارے میں کہنا ہے کہ یہ مسئلہ اردن کے محدود وسائل کو ختم کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے اس لیے عالمی برادری کو اس مسئلے سے نمٹنے میں مدد کرنی چایے۔
سلامتی کونسل میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق اردن کو پانچ لاکھ شامی پناہ گزینوں کی میزبانی کیلیے 2014 تک مجموعی طور پر پانچ اعشاریہ تین ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی۔
اس تخمینے کے مطابق 2013 کے دوران فوری طور پر اردن کو اس مقصد کیلیے دو اعشاریہ ایک ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں ڈونر ممالک نے 777 ملین ڈالر فراہم کیے ہیں۔
اردن کے وزیر منصوبہ بندی ابراہیم سیف کا کہنا ہے کہ شامی بحران اندازے سے زیادہ طویل ہو گیا ہے اس لیے عالمی امداد کی زیادہ ضرورت ہے۔ واضح رہے اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق اس وقت اردن میں ساڑھے پانچ لاکھ رجسٹرڈ شامی پناہ گزین موجود ہیں جوکہ اردن کی اپنی آبادی کا آٹھ فیصد بنتے ہیں۔