عقل عیار ہے سو بھیس بنالیتی ہے
عشق بےچارہ نہ ملا ہے نہ زاہد نہ حکیم
-اقبال
(عبید اللہ ناصر)
پٹنہ میں نریندر مودی کی ریلی میں ہوئے بم دھماکوں نے ٹی وی چینلوں میں بحث کا موضوع ہی بدل دیاہے ۔ اگر یہ المیہ نہ ہوا ہوتا تو بحث کا اصل موضوع اندور میں راہل گاندھی کی تقریر اور پٹنہ میں نریندر مودی کی تقریر نہ صرف موضوع بحث ہوتی بلکہ سیاسی لال بجھکڑوں سے لے کر ٹی وی کے اینکر تک اپنا گلا پھاڑ رہے ہوتے اور اخباروں کے صفحہ کالے کئے جارہے ہوتے ۔سیاسی اور صحافتی طور سے اس گرما گرم ماحول میں ہے میڈیا اور سیاسی لال بجھکڑوں کی مہر بانی سے سچ جھوٹ اور جھوٹ سچ بنتا جارہا ہے۔ کتنی حیرت انگیز بلکہ اس سے بھی زیادہ شرمناک اور تشویشناک بات ہے کہ چرب زبانی مداری پن اور ایک جھوٹ ہزار بار بول کر اسے سچ بنادینے کے فن نے ملک کی سیاست کو ہی بدل کر رکھ دیاہے ۔ بہر حال ، راہل اور مودی کی
مذکورہ دونوں تقریروں کا ایماندانہ تجزیہ ضروری ہے تاکہ ٹی وی چینلوں کے شور میں سچائی کی آواز دب نہ جائے۔
اندور میں راہل گاندھی نے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں نفرت کی سیاست کے خطرناک نتائج سے عوام کو آگاہ کرتے ہوئے شائد زیب داستاں کے طور پر یہ کہہ دیا کہ مظفر نگر کے فساد متاثر مسلم نوجوانوں سے آئی ایس آئی کے ایجنٹوں نے رابطہ کر رکھا ہے اور ان کی ذہن شوئی(Brain Washing) کررہے ہیں ۔ انہوں نے جوش خطابت میں یہ بھی کہہ دیا کہ انہیں یہ اطلاع انٹلی جنس ذرائع سے ملی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ راہل نے اپنی بات کہنے کے کے لئے غلط الفاظ کا استعمال کیا لیکن کیا اس حقیقت سے بھی انکار کیا جاسکتاہے کہ آئی ایس آئی ایسے مواقع کی تلاش میں رہتی ہے اور کچے ذہن کے نوجوانوں کو ورغلا کر انہیں اپنے ناپاک عزائم کے لئے استعمال کرتی ہے ۔ انٹلی جنس بیورو (IB) جیسی تنظیم ایک نہیں درجنوں باریہ بات کہہ چکی ہے کہ بابری مسجد کی شہادت ، ممبئی کے فساد اور گجرات کے قتل عام کی وجہ سے کچھ نوجوانوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا پہلے سیمی(SIMI) اور بعد میں انڈین مجاہدین(IM) کے جھنڈے تلے اکٹھا ہوئے آئی ایس آئی اور لشکر طیبہ جیسی ہندوستان دشمن تنظیموں سے مالی مدد اور ضروری تربیت حاصل کی اور ہندوستان میں کئی وارداتیں انجام دیں اور صرف مسلم نوجوان ہی کیوں کیا پنجاب کے دہشت گردوں اور ان کی تنظیم ببر خالصہ کے تارائی ایس آئی سے نہیں ملتے کیا آسام کے الفا(ULFA) کے تار آئی ایس آئی سے نہیں ملتے پھر راہل کے بیان پر میڈیا اور کچھ نام نہاد دانشور ، صحافی اور خود مسلم لیڈران اتنا ہنگامہ کیوں کھڑا کررہے ہیں ۔ راہل گاندھی نے ہوسکتاہے غلط الفاظ استعمال کئے ہوں لیکن ان کا مافی الضمیر بالکل واضح اور ایماندارلنہ تھا ان کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ نفرت اور تشدد کی سیاست کا چکر اگر چل گیا تو یہ ملک بر باد ہوجائے گا اس لئے نفرت تشدد اور غصہ کی سیاست ترک کرکے محبت اور ترقی سیاست کا مقصد ہونا چاہئے ۔ مسلمانوں کے خلاف جھوٹے پرو پگنڈے کبھی ان کی نام نہاد بڑھتی آبادی کے جواب میں ہندوو¿ں کو بھی زیادہ بچے پیدا کرنے کا مشورہ کبھی نام نہاد ” لو جہاد“ کی کاٹ کے لئے مسلم لڑکیوں پر ڈورے ڈالنے اور مسلم نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کا مشورہ دینا ، کبھی فرقہ وارانہ فساد کے ذریعہ قتل عام آبرو ریزی ، لوٹ پاٹ وغیرہ کو عمل کارد عمل قرار دینا یہ سب بی جے پی کی سیاست کا محور ہیں اور جب راہل گاندھی نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تو الیکشن کے اس ماحول میں اس کی آنکھوں کے نیچے اندھیرا چھاگیا بی جے پی کے چرب زبان ترجمان، مودی پرست ٹی وی اینکر صاحبان کانگریس کو مسلمانوں کا نمبر ایک دشمن بتانے والے مسلم دانشور علماءصحافی سب ننگی تلواریں لے کر راہل گاندھی کے خلاف میدان میں کود پڑے اور اس طوفان بلا خیز میں راہل گاندھی کا مافی الضمیر کہیں دب گیا اور ان کے الفاظ کو ہی ان کے لئے پھانسی کا پھندا بنادیا گیا۔
دوسری جانب پٹنہ کی ریلی میں نریندر مودی نے خود کو سیکولر ازم اور ہندو مسلم اتحاد کا مسیحا بناکر پیش کیا۔ انہوں نے ہندوستانی آئین کو اپنی گیتا بتایا اور کہا کہ ترقی کا پھل سماج کے ہر طبقہ میں مساوی طور سے تقسیم ہونا چاہئے انہوں نے کچھ اور بھروچ سے زیادہ مسلمانوں کے سفر حج پر جانے کو اپنی حکومت کی بڑی کامیابی بتایا۔ انہوں نے میل ملاپ اور سیکولرازم پراور بھی بہت کچھ کہا اور میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا نے اسے آفاقی سچ تسلیم کرتے ہوئے نہ ان کے ماضی کو ٹٹولنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی انہیں یاد دلایا کہ کس طرح انہوں نے مسلم اور ہندو فساد متاثرین میں تفریق پر مبنی راحت کی رقم تقسیم کی تھی ۔ گودھرا کے مسلم مجرموں کو پوٹا کے تحت گرفتار کیا گیا جب کہ گجرات کے قتل عام کے سنگھی فسادیوں کو معمولی دفعات میں گرفتار کیا گیا اور ان کو سزا سے بچانے کے لئے وشو ہندو پریشد سے وابستہ سرکاری وکیل تعینات کئے گئے جنہوں نے مقدمات کو بالکل برباد کردیا تھا مجبوراً سپریم کورٹ کو کئی مقدمات گجرات سے باہر منقل کرنے پڑے تھے۔
مسلم راحت کیمپوں کو بچہ پیدا کرنے کے کارخانے کہا تھا، کس طرح انہوں نے مسلم طلبا کو مرکزی وظیفہ بھی نہیں ملنے دیا اور تقریباً دس سال بعد جب رحمان خان نے ان وظیفوں کو براہ راست تقسیم کرنے کی آگاہی دی اور سپریم کورٹ نے مداخلت کی تب یہ سلسلہ شروع ہوا ۔ کارکے نیچے دب کر پلے کی موت پر بھی اظہار غم اور سیکولرازم کا برقعہ تو ابھی کل کی بات ہے ۔ کسی سیاسی لال بجھکڑ کسی ٹی وی اینکر، کسی مسلم دانشور عالم اور صحافی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ اب وہ کیوں سیکولرازم یہی برقعہ اوڑھ رہے ہیں ۔ مودی ہوں یا آر ایس ایس کی شاکھاو¿ سے نکلا ہوا کوئی بھی لیڈر ہندوستانی آئین پر اس کا اعتماد محض سیاسی قانونی اور آئینی ضرورت کے تحت ہے ورنہ ان کا اصل آئین تو گرو گولوالکر کی کتاب ” ہم اور ہماری قومیت کی تشریح “ اور ویر ساورکر کی ہندو تو ہے جس میں ہندو ، راشٹر کا تصور پیش کرکے اس میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کو کس طرح رکھا جاناہے اور رہناہے واضح کردیا گیاہے ، کیامودی آئین ہند کو اپنی گیتا قرار دیتے وقت مذکورہ دونوں کتابوں سے اپنی وابستگی چھوڑنے کا بھی واضح اعلان کریں گے کیونکہ مذکورہ دونوں کتابیں اور آئین ہند دونوں آپس میں متصادم ہیں ۔ یہ مسئلہ1978-79میں جنتا پارٹی کے دور حکومت میں راج نرائن مدھو لمائے، موہن دھاریہ جیسے لیڈروں نے اٹھایا تھا اور اسی دوہری ممبری اور دوہری وفاداری کے سوال پر جنتا پارٹی کا شیرازہ بکھرگیا تھا مگر نہ تو سوشلسٹوں نے سیکولرازم اور آئین ہند سے اپنی وفاداری پر سمجھوتہ کیا اور نہ ہی بھگوا بر گیڈ نے آر ایس ایس اور اس کے نظریات سے اپنی وابستگی پر ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سیاسی لال بجھکڑ ، ٹی وی کے اینکر، مودی زدہ(Modi-fied) مسلم دانشور ، صحافی اور علما مودی اور بی جے پی کے دیگر بڑے بڑے لیڈروں سے اس معاملہ کی وضاحت طلب کرتے مگرسب آنکھ موند کر مودی اور ان کے ” سیکولرازم کا برقعہ، اوڑھ لینے کے گن گانے میں لگے ہیں۔
راہل اور مودی کے سلسلہ میں ہر شخص اپنی اپنی سوچ و فکر کے مطابق فیصلہ کرے گا مگر اس حقیقت کو مد نظر رکھنا ہوگا کہ سماج کے سبھی طبقوں کے درمیان بغیر ذہنی ہم آہنگی اور احساس وابستگی کے یہ ملک کبھی ترقی یافتہ اور خوشحال نہیں ہوسکتا دوسرے جس ندی کا منبع ہی غلاظت سے بھراہو وہ کبھی صاف اور پینے لائق پانی نہیں دے سکتی اور جس ندی میں راستے میں غلاظت شامل ہوگئی ہو اسے صاف کرکے پینے لائق پانی حاصل کیا جاسکتاہے۔ سنگھ پریوار اور اس سے وابستہ تنظیموں بشمول بی جے پی اور دوسری سیاسی پارٹیوں میں یہی بنیادی فرق ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ’ قومی خبریں‘ کے ایڈیٹر ہیں)