ہم گزشتہ نسل سے اپنا موازنہ کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان کے مقابلے میں ہم چیخ وپکار کے عادی ہو چکے ہیں اور ہماری سماعت دھیمی آوازکو سننے سے قاصر رہتی ہے ۔ٹریفک کے بے ہنگم شور ،صنعتی مشینوں کی گڑ گڑاہٹ اور روز مرہ استعمال ہونے والے برقی آلات نے مجموعی طور پر ہمارے ماحول میں شور وغل بڑھا دیا ہے ،جو ہماری صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے ۔ہم قطعی طور پر اس حقیقت سے بے گانہ ہیں کہ اطراف سے آنے والے شور اور آوازوں سے ہی ہم ذہنی دبائو کا شتکار نہیں ہیں بلکہ اپنے گھروں میں ہونے والے شور نے بھی ہمارے دماغی اور سمعی اعصاب کو متاثر کیا ہے ۔کیونکہ یہ صرف گھر سے باہر کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ آج کل گھروں میں بھی بے انتہا شور وغل کی آوازیں ہو تی رہتی ہیں ،کبھی کسی مشین کی آواز تو کبھی ٹیلی ویثرن یا موسیقی کی تیز دھنیں ۔گھریلو خواتین بھی ان سے متاثر ہو تی نظر آرہی ہیں ۔ٹیلی ویثرن پر ان دنوں جو پرو گرام پیش کئے جاتے ہیں ان کی پس پر دہ موسیقی کی دھن بے حد تیز ہوتی ہے اور سماعت پر گراں گزرتی ہے ،اس کے علاوہ ہر پانچ منٹ بعد ہی تازہ ترین خبروں خبر (بریکنگ نیوز)کا شور مچتا ہے ۔جو گھروں میںبزرگوں کیلئے ناگوار ،لیکن بچوں اور نوجوانوں کیلئے خوش گوار ہو تاہے ۔ہم میں سے اکثر ا س حقیقت سے
بے خبر ہیں کہ بلند آوازیں سننے کے بعد اب ہماری سماعت دھیمی آواز سننے کی عادی نہیں رہی ہے ۔لہٰذا جب کو ئی دھیمی آواز میں گفتگو کرتاہے توہم الجھن میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ہمہ وقت بلند آواز وں کے سنگم میں رہنا بد اخلاقی اور بد تہذیبی کی علامت ہے ۔وہ آوازیں جو اچانک گونجتی ہیں اور ہمارے کانوں کے پردوں سے ٹکراتی ہیں ان کی طاقت ۹۰؍ڈیسی بل سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے ورنہ اس سے سمعی صحت پر منفی اثر پڑتاہے ۔آپ کے کان دھیمی آواز سننے کے قابل نہیں رہتے ۔تیز آوازیں سننے سے اور بھی شکایات پیدا ہو جاتی ہیں ۔وہ بچے جو تیز موسیقی سننے کے عادی ہیں اور ویڈ یو گیمز کھیلنے کے دوران اس کی آواز بے حد تیز کر دیتے ہیں وہ سکون کی نیند نہیں لے پاتے ۔ان کا رویہ جارحانہ ہو جاتاہے اور وہ کسی کام پر توجہ مرکوز نہیں کرپاتے ۔چنانچہ جب وہ کوئی چیز یاد کرنے کیلئے بیٹھتے ہیںتو انہیں دشواری ہو تی ہے ۔جب یہ معاملہ انتہاکو پہنچ جاتاہے تو بچوں کے اعصاب اتنے متاثر ہو جاتے ہیں کہ گفتگو کرتے ہوئے زبان ان کا ساتھ نہیں دے پاتی اور وہ کچھ کا کچھ کہہ جاتے ہیں ۔تیز آوازیں سننے سے ان کا دل بھی متاثر ہونے لگتا ہے ۔ شور سے پیدا ہونے والی اعصابی شکایات ایسی نہیں ہیں کہ ان کا سد با ب نہ کیا جاسکے ۔ہم گھروں میں احتیاطی تدابیر اختیار کرکے ان پر قابو پاسکتے ہیں ۔وہ احتیاطی تدابیر درج ذیل ہیں ۔
آواز کو د ھیما رکھیں:
اگر آپ ٹیلی ویثرن سے کافی فاصلے پر نہیں بیٹھتے ہیں اور آپ کو آواز واضح سنائی دے رہی ہے تو ا س کی آواز کم ہی رکھنا چاہئے ،اسی طرح اگر ایم پی ۳؍پلیئر ز اور آئی پو ڈزاستعمال کررہے ہوں تو اس کے دھیمے پن کا خاص خیال رکھیں ۔یاد رکھئے کہ اگر آپ اپنے بیٹے کے موسیقی کے آلے کا پلک کان میں لگا لیتے ہیں اور وہ آپ کو کان کا پردہ پھاڑ تی ہوئی محسوس ہورہی ہے تو اسے فوراًکم کیجئے ۔ایم پی ۳؍پلیئر زاور آئی پوڈز کے پلک کان میں ڈالے جاسکتے ہیں لیکن اگر ان کی آواز کی انتہا ۱۰۰؍ڈیسی بل تک پہنچ جائے تو یہ کسی بھی صحت مند شخص کو بہرا کرنے کیلئے کافی ہے ۔چنانچہ اسے دھیما رکھئے ۔
شور مچانے والے کھلونے نہ خریدیں:
بغیر سوچے سمجھے ہم اپنے بچوں کو ایسے کھلونے خرید کر دے رہے ہیں جن سے وہ جھگڑا لو اور بد تہذیب بنتے جارہے ہیں ۔ان کیلئے کو ئی بھی کھلونا خریدنے سے پہلے اس کا اچھی طرح معائنہ کر لیجئے اس میںتیز اور کرخت آوازیں تو نہیں نکلتیں ؟اور اگر نکلتی ہیں تو کیا انہیں کم کیا جا سکتا ہے ؟اپنے بچوں کیلئے ایسے کھلونوں کا انتخاب نہ کیجئے جن سے تیز آواز یں آتی ہوں ۔مثلاًسائرن بجتا ہویا گولیوں کی تڑ تڑ اہٹ سنا ئی دیتی ہو ۔ابتدا سے آپ بچوں کو جو تربیت دیں گے وہ اسی کے عادی ہوجائیں گے چنانچہ انہیں نرم اور دھیمی آوازوں کا عادی بنائیں ۔
اپنے کانوں کی
حفاظت کیجئے :
جب آپ بھاری اور پر شور آوازوں والی مشینوں کے ساتھ کا م کررہے ہوں تو اپنے کانوں میں پلک یا روئی کے ٹکڑے رکھ لیجئے۔مثال کے طور پر دیکیوم کلیز ،واشنگ مشین اور لان میں گھاس کاٹنے کی مشین وغیرہ ۔جہاں تک ہو سکے مشینوں کے بجائے ہاتھوں سے صفائی کیجئے تاکہ مشین کے شور کا سامنا نہ کرنا پڑے اور آپ بجلی خرچ کرنے سے بھی بچ جائیں ۔
شور وغل سے پاک گوشہ:
گھر میں ایک ایسا گوشہ ضرور بنائیے جو شور وغل سے پاک ہو۔مثال کے طور پر آپ کی خوابگاہ میں ٹیلی ویثرن اور دوسری شور وغل کرنے والی چیزیں نہ ہوں ۔بہت سے افر اد اپنی خوابگاہ میں ٹیلی ویثرن اور سائونڈ سسٹم رکھنا پسند کرتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اس سے گریز کریں کیونکہ ان کے ذہن کو تھکن اور شور وغل سے دور رہ کر آرام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس بات کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ خواتین اور خصوصاً بچوں کو بلند آواز سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ نہ ہی یہ صحت کیلئے بہتر ہے اور نہ ہی اخلاقی اعتبار سے ۔ماناکہ موجودہ زمانے میں جہاں ہر سمت سے آوازیں اور شور وغل سنائی دیتے ہیں احتیاط کرنا ذرا مشکل کام ہے لیکن ہمارے لئے سب سے اہم ہماری صحت ہونی چاہئے جو ان غیر ضروری آوازوں کی وجہ سے خطرے میں پڑ سکتی ہے اس لئے ہمیں جہاں تک ممکن ہوان آوازوں (بہت تیز آواز )سے گریز کرنا چاہئے ۔