جدّہ: سعودی عرب کی شوریٰ کونسل نے ملک میں کام کرنے والی خاتون ٹی وی اینکروں کے لیے لباس کے نئے ضابطے کی منظوری دی ہے جس کے تحت انہیں ایسا لباس پہننے کا پابند کیا گیا ہے جس سے ان کے حسن اور خوبصورتی کا اظہار نہ ہو۔
عرب نیوز کے مطابق شوریٰ کونسل کی میڈیا کمیٹی کے چیئرمین احمد آل زیلعی کا کہنا ہے کہ اس قانون کی کابینہ سے منظوری کے بعد اس کا سعودی عرب میں کام کرنے والی تمام خواتین میڈیا saudi anchorورکروں پر اطلاق ہوگا۔ان میں ایم بی سی نیٹ ورک کی خواتین اینکر بھی شامل ہیں۔
شوریٰ کی ایک خاتون رکن لطیفہ آل شعلان نے کونسل کے ارکان کی جانب سے خواتین ٹی وی اینکروں کے لباس کے ضابطے میں دلچسپی پر حیرت کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ایشوز ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے
انہوں نے اس ضمن میں دہشت گرد گروپ داعش کی میڈیا پر سرگرمیوں کا ذکر کیا ہے اور کہا کہ ان سے لاحق خطرات سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی میڈیا میں سعودی عرب کے خلاف چلائی جانے والی مذموم مہم کا توڑ کرنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت پر زوردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’سعودی میڈیا کو چاہیے کہ وہ سعودی عرب کو خطے میں ایک اعتدال پسند سیاسی قوت کے طور پر پیش کرے۔‘‘
شوریٰ کونسل کے اس فیصلے سے قبل ہی سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی ویژن نے اپنی خواتین اینکروں کو روایتی عبایا پہننے کی ہدایت کردی گئی تھی۔ میزبان بدور احمد پہلی اینکر تھیں جو سیاہ رنگ کے عبایا کے ساتھ الاخباریہ نیوز چینل پر ایک پروگرام میں دکھائی دیں۔
واضح رہے کہ شوریٰ کونسل کی ایک رکن نورا آل عدوان نے سعودی عرب کے تمام نجی ٹی وی اسٹیشنوں میں کام کرنے والی خواتین کے لیے ایک ضابطۂ لباس مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اسی دوران شوریٰ کے ایک اور رکن ابراہیم ابو عباط نے سعودی عرب کی نمائندگی کرنے والی تمام خواتین کے لیے لباس کا ایک قومی ضابطہ وضع کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ضابطہ صرف ٹیلی ویژن کی میزبانوں اور پیش کاروں تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیے۔
ابو عباط کی جانب سے یہ مطالبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سعودی عرب کے سفارتی مشن کی ایک سینیر رکن منال رضوان کی جانب سے ننگے سر تقریر کرنے کے بعد سامنے آیا ہے۔ یاد رہے کہ منال رضوان نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں 30 جنوری کو تقریر کے دوران اسکارف یا عبایا نہیں لیا ہوا تھا۔
انٹرنیٹ کے ذریعے منال رضوان کی تصاویر منظرعام پر آنے کے بعد سے سعودی عرب میں ان پر کڑی تنقید کی جارہی ہے اور بعض بلاگروں نے ان کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ایک بلاگر نے لکھا:’’مجھے حیرت ہے کہ اس خاتون کو کس نے عالمی اجتماع میں تقریر اور سعودی عرب کی نمائندگی کی اجازت دے دی تھی۔‘‘