سعودی خاتون عزا الشمسانی ڈرائیونگ پر پابندی کے خلاف احتجاج میں شرکت کے بعد ریاض میں اپنی گاڑی سے اتر رہی ہیں
سعودی عرب کی شوری کونسل نے حکومت کو سفارش کی ہے کہ ملک میں خواتین کو مشروط طور پر ڈرائیونگ کی اجازت دے دی جائے۔
یاد رہے کہ شوری کونسل کا تقرر سعودی فرمانروا کرتے ہیں اور اس کی سفارشات پر عمل حکومت پر لازم نہیں ہوتا، تاہم خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے سے متعلق کونسل کی جانب سے ایسی سفارش پہلی مرتبہ ایک اہم تبدیلی خیال کی جا رہی ہے۔
شوری کونسل کے ایک رکن نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا “کہ ہم نے حکوم
ت کو شفارش کی ہے کہ سعودی خواتین کو مشروط طور پر ڈرائیونگ کی اجازت دی جائے۔ صرف تیس برس کی عمر سے زائد کی خواتین کو رات اٹھ بجے تک اس شرط پر گاڑی چلانے کی اجازت دی جائے کہ وہ میک اپ کر کے گاڑی چلانے نہیں نکلیں گی۔”
سعودی عرب میں گذشتہ کئی برسوں کے دوران خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے سے متعلق ‘محدود مگر بولڈ’ مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں۔ دنیا میں خواتین کے گاڑی چلانے پر پابندی سعودی عرب میں اپنی طرز انوکھا اقدام ہے کیونکہ مسلمان علماء کے کی دانست میں خواتین کی ڈرائیونگ سے ملک میں بے راہ روی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
شوری کونسل کے رکن کے مطابق یہ سفارشات کونسل کے گذشتہ ماہ بند کمرے میں ہونے والے ایک اجلاس میں پیش کی گئیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ سفارشات ابھی منظر عام پر نہیں آئیں ہیں اس لئے ان کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے۔
سفارشات کے مطابق تیس برس سے زائد عمر کی سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کے لیے اپنے مرد محرم سے اجازت لینا ہو گی۔ ہفتہ سے بدھ کے دنوں میں خواتین صبح سات بجے سے رات آٹھ بجے تک گاڑی چلا سکیں گی جبکہ کونسل نے سعودی عرب کی جمعرات اور جمعہ کی دو روزہ ہفتہ وار تعطیل کے ایام میں خواتین کو دوپہر سے شب آٹھ بجے تک گاڑی چلانے کی مشروط سفارش کی ہے۔
کونسل کے عہدیدار کے مطابق خواتین گاڑی چلانے وقت عام سا لباس پہنیں گی اور انہیں ڈرائیونگ سیٹ پر میک اپ کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت بھی نہیں ہو کی۔ شہر کے اندر وہ مرد محرم کے بغیر جبکہ شہر کی حدود سے باہر وہ مرد محرم کے بغیر گاڑی ڈرائیو نہیں کر سکیں گی۔
کونسل ممبر کا مزید کہنا تھا کہ مشاورتی فورم نے خواتین کو ڈرائیونگ کی مشروط اجازت کے بعد ‘زنانہ ٹریفک پولیس’ کا محکمہ تشکیل دیا جائے گا تاکہ کسی حملے یا گاڑی خرابی کی صورت میں زنانہ ٹریفک عملہ ہی خواتین ڈرائیوز کی رہنمائی اور مدد کر سکے۔ نیز خواتین ٹریفک افسروں کی نگرانی کا کام مذہبی ایجنسیاں سرانجام دیں گی۔
ایک سو پچاس رکنی شوری کونسل کا تقرر سعودی فرمانروا کرتے ہیں۔ اس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو نمائندگی دی جاتی ہے۔ شوری کونسل کو مملکت میں پارلیمنٹ کے قریب ترین فورم خیال کیا جاتا ہے، تاہم اسے قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں۔ سعودی فرمانروا نے تیس خواتین کو پہلی مرتبہ شوری کونسل کا رکن مقرر کیا ہے۔
سعودی عرب میں خواتین کی گاڑی چلانے پر پابندی کے باعث متعدد خاندان گھروں میں ڈرائیور رکھنے پر مجبور ہیں۔ تین سے چار سو ڈالر تک ڈرائیور کا ماہانہ مشاہراہ برداشت نہ کر سکنے والی خواتین کو دفتر، سکول، خریداری یا پھر ڈاکٹر کے کلینک تک رسائی کے لئے خاندان کے مرد رشتہ داروں پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔