جاپان کے آئین کے مطابق عوام میں جنس کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جا سکتی
جاپان میں ایک شخص نے خواتین کی یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملنے پر یورنیوسٹی کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
بینکاک پوسٹ کی رپورٹ میں اس شخص کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے اور یہ ملک کے جنوب مغربی علاقے میں واقع فوکوکا یونیورسٹی برائے خواتین میں داخلہ لینا چاہتا تھا۔
جاپان کی کیدو نیوز ایجنسی کے مطابق اس خطے میں واحد سرکاری یونیورسٹی ہے جہاں پر وہ کورسز پڑھائے جاتے ہیں جن میں یہ شخص داخلہ لینا چاہتا تھا تاہم
اس کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا۔
اس شخص نے یونیورسٹی کے فیصلے کو جنسی تعصب قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کیا تھا۔
جاپان کے آئین کے مطابق عوام میں جنس کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جا سکتی اور تعلیم حاصل کرنا سب کا یکساں حق ہے۔
اس شخص نے فوکوکا کی ضلعی عدالت میں دائر اپنے کیس میں کہا ہے کہ ایک سرکاری یونیورسٹی پر عوام کا حق ہوتا ہے اور اسے ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدن سے چلایا جاتا ہے۔
’اگر میری درخواست مسترد کی جاتی ہے تو اس صورتحال میں میرے غذائیات داں بننے کے راستے محدود ہو جائیں گے جس میں یا تو مجھے اپنے علاقے سے باہر کسی یونیورسٹی میں داخلے کے لیے جانا پڑے گا یا کسی نجی کالج میں داخلہ لینا پڑے گا۔‘
اس شخص کے وکیل کے مطابق ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ خواتین کی سرکاری یونیورسٹی کی آئینی حیثیت کو چلینج کیا گیا ہے۔
اس شخص نے کیس میں استدعا کی ہے کہ یونیورسٹی نہ صرف اس کی درخواست کو منظور کرے بلکہ اس زرتلافی بھی ادا کرے۔
گذشتہ سال نومبر میں جب اس شخص نے یونیورسٹی کے خلاف کیس دائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس وقت یونیورسٹی کے ایک اہلکار نے کہا تھا:’ ہماری خواتین میں تعلیم کے فروغ کی 90 سالہ تاریخ ہے اور ہم خواتین کو قیادت کی ذمہ داریوں کے لیے تیار کرنے کے حوالے سے تعلیم دینے پر کاربند رہیں گے۔‘