لکھنؤ، 31 مارچ (یو این آئی) مدرسوں میں اردو، عربی اور فارسی کے ذریعے پڑھنے والے طلباء کو اعلی تعلیم دلانے کے مقصد سے لکھنؤ میں قائم کی گئی خواجہ معین الدین چشتی اردو، عربی، فارسی یونیورسٹی میں ان زبانوں کی لازمیت کو مبینہ طور پر غیر قانونی طریقے سے ختم کیے جانے کی شکایت گورنر سے کی گئی ہے . آر ٹی آئی کارکن سلیم بیگ نے گزشتہ 10 مارچ کو گورنر رام نایک سے شکایت میں کہا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ایگزیکٹیو کونسل کے 21 ستمبر 2012 کے فیصلوں کو اس کی اجازت لئے بغیر تبدیل کرتے ہوئے اردو، عربی اور فارسی کی لازمیت ختم کردی ہے اور ان میں حاصل پوائنٹس کو مارکشیٹ میں نہ شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس یونیورسٹی کے قیام کا مقصد مدرسوں سے پڑھ کر نکلنے والے طلباء کو اردو، عربی یا فارسی میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا موقع دینا تھا۔لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے اس نظام کو ختم کرکے ہزاروں طلباء کے ساتھ نہ صرف دھوکہ کیا ہے بلکہ یونیورسٹی کے قیام کے اصل مقصد کو ہی ختم کر دیا ہے . مسٹربیگ نے کہا کہ کوئی بھی یونیورسٹی اس کی ایگزیکٹو کونسل اور تعلیمی کونسل کی ہدایات پر ہی چلتی ہے اور اس کے فیصلوں کو یونیورسٹی انتظامیہ من مانے طریقے سے نہیں بدل سکتا. انہوں نے امید ظاہر کہ ریاست کے یونیورسٹیوں کے چانسلر ہونے کے ناطے گورنر اس معاملے میں منصفانہ کارروائی کریں گے . بیگ نے یہ الزام بھی لگا یا ہے کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر خان مسعود احمد نے گزشتہ سال 10 جولائی کو ایک پریس کانفرنس کرکے اردو، عربی اور فارسی موضوع کی ضروری
موضوع کے طور پر لازمیت ختم کرنے اور ان موضوعات کے نمبروں کو مارک شیٹ میں نہ شامل کرنے کا اعلان کیا تھا. انہوں نے بتایا کہ اس معاملے میں حق اطلاعات قانون کے تحت پوچھے گئے سوال کے یکم ستمبر 2014 کو دیے گئے جواب میں یونیورسٹی انتظامیہ نے کہا کہ اس موضوع پر یونیورسٹی سطح پر پروفیسران کی ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے اور یہ موضوع زیر غور ہے . مسٹر بیگ نے کہا کہ جب یہ معاملہ زیر غور ہے تو 10 جولائی 2014 کو منعقد پریس کانفرنس میں اسے عمل میں لانے کا اعلان کیوں کر دیا گیا۔ اس درمیان، خواجہ معین الدیں چشتی اردو، عربی فارسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر خان مسعود احمد کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی میں اردو، عربی اور فارسی اب بھی ابتدائی موضوع کے طور پر پڑھائی جا رہی ہے ۔ انہوں نے اردو، عربی اور فارسی موضوعات کے نمبر مارک شیٹ میں شامل نہیں جانے کی وجوہات کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا کہ جامعہ ملیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سمیت تمام مسلم اداروں میں ان موضوعات کے نمبر شامل نہیں جاتے ۔احمد نے کہا کہ ان کا مقصد اس ادارے کو جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرز پر آگے بڑھانے کا ہے ۔