شام میں دیرالزور کے مشرقی نواح اور المیادین شہر میں “داعش” تنظیم کے عناصر اپنے مالی حالات کی خرابی کے سبب بے چینی کا شکار ہیں۔
شام میں انسانی حقوق کی رصدگاہ کے مطابق خود ساکتہ اسلامک اسٹیٹ یعنی “داعش” کی قیادت نے تنظیم کے ارکان کی تنخواہ 100 امریکی ڈالر سے کم کر کے 50 ڈالر کر دی ہے۔ اس کے نتیجے میں تنظیم کے جنگجوؤں میں عدم اطمینانی کی صورت حال نظر آ رہی ہے۔ اسی دوران تنظیم کے مراکز میں کام کرنے والوں کے کھانے پینے کے لیے مخصوص وظیفے کو دو ڈالر سے کم کر کے صرف نصف ڈالر کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ان اقدامات کا بنیادی سبب داعش تنظیم کی آمدنی میں شدید قسم کی کمی ہے۔ بالخصوص ستمبر 2014 سے جب بین الاقوامی اتحاد کی جانب سے تنظیم پر فضائی حملوں کا آغاز کیا گیا۔ اس کے علاوہ روسی فضائیہ اور شامی حکومت کے طیاروں کی جانب سے بھی تنظیم کے ٹھکانوں اور تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جن پر داعش مالی رقوم کے حصول کے سلسلے میں انحصار کرتی تھی۔
شام میں انسانی حقوق کی رصدگاہ کے کارکنان رواں سال جنوری میں اس نوٹس کی کاپی حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے جو داعش تنظیم کے “بیت المال” کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔ اس نوٹس کو تنظیم کے ارکان کے علاوہ عسکری، سیکورٹی اور شرعی اداروں میں تقسیم کیا گیا۔ نوٹس میں اس امر سے آگاہ کیا گیا کہ “دولہ اسلامیہ کو درپیش غیرمعمولی حالات کے سبب مجاہدین کو ادا کی جانے والی رقم آدھی کرنے کا فیصلہ کیا جارہا ہے اور کوئی بھی شخص خواہ اس کا کوئی بھی منصب ہو اس فیصلے سے مستثنی نہیں ہوگا جب کہ ہر ماہ دو مرتبہ غذائی اشیاء کی تقسیم کا سلسلہ حسب معمول جاری رہے گا”۔
رصدگاہ کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق تنخواہوں میں کمی کے فیصلے کے بعد داعش میں شامل شامی جنگجوؤں کے دلوں میں یہ اندیشہ گھر کر گیا کہ یہ کمی تنظیم کی قیادت کی جانب سے عرب اور غیرملکی جنگجوؤں کی اجرتوں میں اضافے کی خواہش کی بنا پر کی گئی ہے اور اس سلسلے میں مقامی جنگجو براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔