ہر نفس کو جینے کے لئے ایک مقررہ وقت عطاکیاگیاہے اوراس میعادمیں ہر نفس کو مکمل کھرا اتر نا ہے کیا بنی نو ع روز اول سے اب تک اس میعاد پر کھرا اتر نے کی سعی کر رہا ہے یا یہ زندگی
جو ہمیں عطا ہوئی ہے اس کو بس یوں ہی گزار کر دنیا سے رخصت ہوجاتاہے ۔
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کئی بار پڑ ھا ہے اور سنا ہے اورخصوصی طور پر صنف نازک میں سلیقہ رہن سہن گھر گر ہستی اور کنبے کو ساتھ میں لے کر چلنے کی زبر دست خوبیاں عطا کی ہیں ۔پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری قوم کی بیٹیاں بڑی تعداد میں خوشگو ار زندگی گزار نے سے محروم ہیں ۔کیو ں ان کے قلب سکون سے کو سوں دور ہیں ؟کیوں وہ ہمیشہ چڑ چڑ ے پن کا شکا ر رہتی ہیں اوروہ ہنسنا بولنا بھول کر ہمیشہ بھو ئیں تا نے ماتھے پر شکن لے کر گھو متی ہیں ؟آج ہر دوسرے گھر میں ایک ہی کہانی دہرائی جارہی ہے کہ بیوی شوہر سے ناراض ہے کیونکہ بیوی سے شوہر خفا خفا ہے کیونکہ بیوی اس کے معیار پر پورا اتر نے میں نا کام ہے ایسی کیاوجہ ہے جس نے از دواجی زندگی کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا ہے ۔مشاہد ہ کر نے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پہلے گھر میں ایک شخص کماتا تھا اور گھر کے ۱۴،۱۵افراد اس آمدنی میں بڑی پرسکون زندگی گزار تے تھے ۔اوراس وقت گھر وں میں برکت بھی تھی کیونکہ ان کی زندگی گزار نے کا طریقہ بڑا سادہ اور پر سکون تھا ۔ان میں حرص حسد اور جلن کا ماد ہ نہیں تھا لیکن جیسے جیسے دنیا تر قی کی طرف بڑھتی گئی ویسے ویسے انسانی سکون ختم ہونے لگا۔لو گ ترقی کے ساتھ اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہلانے کی درڑ میں تیزی سے دوڑ نے لگے اوراس دوڑ میں رشتے خلوص محبت پیا ر اوروفاکی قربانی دیتے چلے گئے ۔جیسے جیسے انسان پیسے کمانے اور اپنا معیار بلند کرنے کے چکر ویوہ میں پھنستاگیا اس میں ہر ایک سے مقابلہ کر نے کا جذبہ تیزی سے پنپنے لگا ۔اور اسی میں اس نے اپنی تما م اچھائیاں دائو پر لگا دیں اوراپنے پیروں پر خودہی کلہاڑی مار لی ۔بے جا خواہشات اورچمک دمک اور دکھا وے کی دنیا میں اپنی حقیقی خوشی کو قر بان کر تا چلا گیا ۔
کیا اس ماحول کو بدلنے کا کوئی راستہ ہے ؟امید پر دنیا قائم ہے اورایسے میں ہماری خواتین میں یہ خاص جو ہر لطیف موجود ہے جیسے خوش مزاحی اور شیر یں زبانی کہتے ہیں اس جو ہر سے وہ دشمنوں کو بھی دوست بنا سکتی ہیں ۔اوراسی صفت کی بناہ پر وہ اپنے گھر میں خوشحالی کا ماحول تیار کر سکتی ہیں ۔