عراق میں القاعدہ سے متاثر جنگجو جماعت دولت اسلامی (داعش) کی جانب سے ایک فتویٰ نما حکم منظرعام پر آنے کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور اس ملک کی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے کہا ہے کہ داعش شمالی شہر موصل اور اس کے نواح میں رہنے والی گیارہ سے چھیالیس سال کے درمیان عمر کی لڑکیوں اور خواتین کے ختنوں کے حکم پر عمل درآمد کراکے رہے گی۔
حمورابی انسانی حقوق کمیشن کے میڈیا تعلقات کے سربراہ ولیم وردہ نے جمعہ کو العربیہ نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”ہمیں یقین ہے،داعش نے جس فتوے کا اعلان کیا ہے،وہ اس پر عمل درآمد کرائے گی”۔
انھوں نے کہا کہ داعش اپنی خواتین کے ذریعے ختنہ شدہ لڑکیوں اور خواتین کو چیک کرسکتی ہے۔ان کے بہ قول داعش کی اپنی خواتین ہیں۔انھوں نے چہرے ڈھانپے ہوتے ہیں اور خاندانوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے اسلحہ اٹھایا ہوتا ہے۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ خواتین عراقی ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا:”ان کا بولنے کا لب ولہجہ بالکل اہلِ موصل جیسا ہے”۔
ولیم وردہ کا کہنا ہے کہ ان خواتین کو یا تو ترغیب دے کر داعش میں شامل کیا گیا ہے یا پھر وہ زبردستی اس جنگجو گروپ میں شامل کرلی گئی ہیں۔اب موصل میں مقیم دوسری خواتین گھروں سے باہر نکلنے سے ڈرتی ہیں۔
عراق میں اقوام متحدہ کی نائب نمائندہ ژاکولین بیڈ کاک نے جمعرات کو سب سے پہلے داعش کے اس
فتویٰ کی اطلاع دی تھی اور بتایا تھا کہ ”اس جنگجو گروپ نے ملک کے دوسرے بڑے شہر موصل اور اس کے آس پاس مقیم گیارہ سے چھیالیس سال کی لڑکیوں اور خواتین کے ختنوں کے لیے ایک فتویٰ جاری کیا ہے”۔
فتویٰ کی اطلاع دی تھی اور بتایا تھا کہ ”اس جنگجو گروپ نے ملک کے دوسرے بڑے شہر موصل اور اس کے آس پاس مقیم گیارہ سے چھیالیس سال کی لڑکیوں اور خواتین کے ختنوں کے لیے ایک فتویٰ جاری کیا ہے”۔
انھوں نے عراقی کردستان کے علاقائی دارالحکومت اربیل سے جنیوا میں ویڈیو لنک کے ذریعے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ”فتوے” سے قریباً چالیس لاکھ لڑکیاں اور خواتین متاثر ہوں گی۔عراق کے لیے یہ بالکل ایک نئی چیز ہے۔خاص طور پر اس علاقے کے لیے یہ ایک گہری تشویش کا معاملہ ہے اور اس کو حل کیا جانا چاہیے۔یہ عراقی عوام کی مرضی کے مطابق نہیں ہے اور دہشت گردوں کے کنٹرول والے علاقوں میں مقیم خواتین بھِی اس کے حق میں نہیں ہیں”۔
دولت اسلامی کے کسی ترجمان یا اس کے کسی اور ذمے دار نے اس خبر پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے کہ آیا انھوں نے واقعی کوئی ایسا فتویٰ جاری کیا ہے۔واضح رہے کہ مصر کے بعض علاقوں میں صدیوں سے خواتین کے ختنوں کی رسم چلی آرہی ہے لیکن عراق میں ایسی کسی روایت پر عمل پیرا ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
عراق کے آزاد ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق کی ایک رکن بشریٰ العبیدی کا کہنا ہے کہ عراق میں خواتین کے ختنے غیر قانونی ہیں اور اس سے ان کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔انھوں نے بتایا کہ ان کے کمیشن نے داعش کی جانب سے کی گئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک فہرست تیاری ہے اور اس کو اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو بھیج دیا ہے۔
موصل پر داعش نے 10 جون کو قبضہ کیا تھا اور وہاں اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد صدیوں سے مقیم عیسائیوں کے سامنے یہ شرط رکھی تھی کہ وہ وہ اسلام قبول کرلیں یا پھر جزیہ دیں۔دوسری صورت میں ان سے کہا تھا کہ وہ شہر سے چلے جائیں۔اب موصل سے سیکڑوں عیسائی اپنا گھربار چھوڑ کر جارہے ہیں۔
ولیم وردہ کا کہنا تھا کہ شہر کے زعماء نے وزیراعظم نوری المالکی کی مخالفت کی بنا پر داعش کا ساتھ دیا تھا لیکن وہ بالآخر اس کے مخالف ہوجائیں گے کیونکہ وہ اس گروپ کے تاریک نظریات سے اس سے پہلے آگاہ نہیں تھے۔