روس نے شام میں امریکا کے فضائی حملوں کی مخالفت کر دی
امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ میں مختلف عرب رہ نماؤں سے عراق اور شام میں سخت گیر جنگجو گروپ داعش کے خلاف ممکنہ
فوجی کارروائی کو مربوط بنانے کے لیے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ہے۔
جان کیری کی عرب وزرائے خارجہ کے ساتھ ان ملاقاتوں سے قبل امریکی صدر براک اوباما نے داعش کے استیصال کے لیے اپنی حکمت عملی کا اعلان کیا ہے جس کے تحت عراق اور شام میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کی جائے گی ۔اس کے علاوہ انھیں خلیجی ممالک کے شہریوں کی جانب سے انفرادی طور پر ملنے والی رقوم کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔
اس حکمت عملی کے تحت اوباما انتظامیہ داعش کو کمزور کرنے اور شکست سے دوچار کرنے کے لیے شامی باغیوں اور منحرف فوجیوں پر مشتمل جیش الحر کو امداد مہیا کرنا چاہتی ہے اور اس کے جنگجوؤں کو داعش اور صدر بشارالاسد کی فوج کے مقابلے میں موثر بنانے کے لیے تربیت دینا چاہتی ہے۔اس مقصد کے لیے امریکا خاص طور پر سعودی عرب سے تعاون کا طلب گار ہے۔
جمعرات کو علی الصباح امریکی صدر براک اوباما کی تقریر کے فوری بعد جان کیری نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انھوں نے کہا کہ ”ہم اس مہم کو برپا کرنے کے لیے پہلے ہی اتحاد کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔ہم ایک مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے دنیا کو متحد کررہے ہیں”۔
انھوں نے کہا کہ ”صدر اوباما کی حکمت عملی کامیاب رہے گی کیونکہ اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس پر عمل درآمد کیا جارہا ہے اور یہ ایک مضبوط اشارہ ہے”۔
تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اوباما انتظامیہ شام میں داعش کے جنگجوؤں کے خلاف کیسے کارروائی کرے گی کیونکہ شامی حکومت نے ابھی ایسی کسی کارروائی کی اجازت نہیں دی ہے اور نہ اقوام متحدہ نے اس کی کوئی منظوری دی ہے۔البتہ عراقی حکومت امریکا کو داعش کے ٹھکانوں کے خلاف فضائی حملوں کی اجازت دے چکی ہے۔
روس کی مخالفت
روس نے امریکا کے شام میں جہادیوں کے خلاف فضائی حملوں کی مخالفت کردی ہے اور کہا ہے کہ یہ حملے بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہوں گے۔
روسی وزارت خارجہ کے ترجمان الیگزینڈر لوکاشیوچ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”امریکی صدر براک اوباما نے شام کی قانونی حکومت کی رضا مندی کے بغیر ہی دولت اسلامی کے ٹھکانوں پر امریکی مسلح افواج کے براہ راست حملوں کی اجازت دے دی ہے”۔
ترجمان نے کہا کہ ”اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اس ضمن میں فیصلے کی عدم موجودگی کے پیش نظر فوجی کارروائی ایک جارحانہ اقدام ہوگی اور یہ عالمی قانون کی اقدار کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہوگی”۔
شامی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کسی بھی فوجی کارروائی کو جارحیت سمجھا جائے گا۔شام کے قومی مصالحتی امور کے وزیر علی حیدر نے دمشق میں ایک بیان میں کہا ہے کہ ”شامی حکومت کے ساتھ تعاون کیا جانا چاہیے۔یہ فوجی کارروائی ہے یا کوئی اور ،اس کی شام سے منظور لی جائے”۔