شام اور عراق میں سرگرم شدت پسند تنظیم دولت اسلامی”داعش” کی صفوں میں مغربی ملکوں سے شامل ہونے والی دو شیزائوں کے بارے میں ایک نئی تحقیقی رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مغربی ملکوں سے “داعش” میں شامل ہونے والی لڑکیاں کم عمر ہونے کے ساتھ ساتھ اسکولوں کی طالبات پر مشتمل ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق برطانیہ کی کنگز کولیڈگ یونیورسٹی کے “انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک ڈائیلاگ اسٹڈی سینٹر” کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں “داعش” کی صفوں میں مغربی ملکوں کی خواتین کی شمولیت کے محرکات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ “داعش” کی صفوں میں شامل ہونے والی مغربی لڑکیوں میں سے بیشتر خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ بعض بہت اچھے اسکولوں کی طالبات ہیں، حتیٰ کہ کچھ رومانس اور عشق ومحبت کے اسرار رموز سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ تاہم بہ وجوہ وہ انتہا پسندی کی طرف مائل
ہوئی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں مٖغربی ممالک سے 550 دوشیزائیں “داعش” میں شمولیت کے لیے عراق اور شام میں پہنچی ہیں۔ اگرچہ رپورٹ میں مغربی خواتین کی اتنی بڑی تعداد کے “داعش” میں شامل ہونے کی کوئی زیادہ تفصیلی وضاحت نہیں کی گئی اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ مغربی ملک لڑکیوں کو داعش میں شمولیت کے لیے سفرسے کیوں نہ روک سکے؟۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “داعش” میں تنظیم کے لیے پروپیگنڈہ کرنے والی خواتین کامیابی کے ساتھ نوجوانوں کو تنظیم کی طرف موڑتے ہوئے ان کے دلوں سے خود کو خطرے میں ڈالنے اور انتہا پسندانہ نظریات اپنانے کے خطرات کو ختم کرنے میں بھی کامیاب رہی ہیں۔ داعش میں یورپی ملکوں سے شامل ہونے والی لڑکیاں تنظیم کے پروپیگنڈہ فورم کے لیے اثاثہ ثابت ہوئی ہیں کیونکہ مغرب کی پڑھی لکھی طالبات جس طرح لوگوں کو داعش کے بارے میں قائل کررہی ہیں وہ داعش کے مردوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مغربی ملکوں سے داعش میں شامل ہونے والی 100 لڑکیاں سوشل میڈیا پر تنظیم کے لیے پروپیگنڈے میں مصروف رہتی ہیں۔
مغربی دو شیزائوں کے “داعش” میں شمولیت کے اسباب اور محرکات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ “داعش” میں شامل ہونے کے رحجان کے کئی اسباب ہیں۔ بعض مسلمان لڑکیاں مسلمانوں پرہونے والے مظالم سے متاثر ہیں اور وہ “داعش” کو نجات دہندہ خیال کرتی ہیں۔ کچھ شوقیہ طور پر خود کو داعشی انتہا پسندوں کی دلہنیں بنانے کے لیے شام اور عراق کا رخ کرتی ہیں۔ بعض شدت پسندوں کی نسل کو آگے بڑھانے کے لیے “داعشی” جنگجوئوں سے شادیاں کرنے کو ترجیح دیتی ہیں اور کچھ انٹرنیٹ پر جنگجوئوں سے “عشق ومحبت” میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داعش میں شامل ہونے والی مغربی لڑکیاں کم عمر ہونے کے ساتھ ساتھ اسکولوں کی طالبات بھی ہوتی ہیں۔ تاہم انٹرنیٹ پر دکھائی دینے والی تصاویر داعشی جنگجوئوں کی عملی زندگی کی عکاس نہیں ہوتی۔ یہ شکایات بھی عام ہیں کہ داعش میں شامل ہونے والی لڑکیوں کو محاذ جنگ میں پہنچنے کے بعد سنگین مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں گھروں میں تنہائی میں بھی وقت گذارنا پڑتا ہے۔
رپورٹ کے آخر میں تجویز دی گئی ہے کہ جس طرح سوشل میڈیا پر داعش کی حامی لڑکیاں تنظیم کے حق میں پروپیگنڈہ کرتی ہیں۔ اسی طرح اس کے توڑ کے لیے سوشل میڈیا کو متحرک ہونا پڑے گا۔ خاص طور پر داعش کا آسان ہدف بننے والی مغربی دو شیزائوں کو داعش کی “مثالی” تصویر کے بجائے انہیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خوفناک نتائج سے آگاہ کرنا ہو گا۔