“ترکی عراق اور شام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑنے کے لیے اتحادی فورسز کو اپنے فوجی آڈے استعمال کرنے کی اجازت دینے پر رضامند ہو گیا ہے۔”
س امر کا اظہار امریکا کی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس نے ایک امریکی ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے کیا ہے۔یاد ر
ہے گذشتہ ہفتے ترک وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ اکیلے ترکی سے دولت اسلامیہ کے خلاف زمینی کارروائی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
انقرہ میں نیٹو کے نئے سربراہ جینز سٹولٹنبرگ سے ملاقات کے بعد وزیر خارجہ مولود جاوشوغلو نے شام کے ساتھ لگنے والی اپنی سرحد کو ’نو فلائی زون‘ قرار دینے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
ترکی کو شام کے قصبے کوبانی میں دولت اسلامیہ کے خلاف کرد جنگجوؤں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا رہا ہے۔ دوسری جانب دولتِ اسلامیہ نے شام اور عراق کے وسیع علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کر رکھا ہے۔
سوزن رائس نے ترکی کی طرف سے کیے گئے نئے وعدوں کا خیر مقدم کیا جس کے تحت ترکی اتحادی فورسز کو انسرلک فضائی آڈے کو استعمال کرنے کی اجازت دے گا جو شام کی سرحد سے تقربیاً 160 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
امریکی اور ترک حکام کے درمیان دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ میں ترکی کے واضح کردار پر بات چیت کا سلسلہ جاری رہے گا۔
امریکا کی سربراہی میں اتحادی فورسز کے فضائیہ نے عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں لیکن پینٹاگان کے ایک ترجمان کے مطابق شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف صرف فضائی کارروائی ہی کافی نہیں بلکہ زمینی کارروائی بھی ضروری ہے۔
ترکی نے شام میں دولتِ اسلامیہ کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر نظر رکھنے کے لیے اپنی سرحد پر ٹینک تو کھڑے کر دیے ہیں لیکن شام میں کوئی براہِ راست ’مداخلت‘ نہیں کی۔
ترکی نے ابھی تک خود کو دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی سربراہی میں قائم ہونے عالمی اتحاد کی کارروائیوں سے دور رکھا تھا۔ اس کی ایک وجہ کردوں کو مسلح کرنے کے بارے میں ترکی کے تحفظات تھے۔ ترکی اپنے ملک میں کرد اقلیت کے خلاف طویل جنگ لڑ چکا ہے۔
واضح رہے کہ کوبانی دولت اسلامیہ اور کرد باشندوں کے بیچ جنگ کا اہم محاذ بنا ہوا ہے۔
ترکی کی کرد اقلیت نے ترک حکومت سے شام کے سرحدی قصبے کوبانی میں دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائی کرنے کے حق میں مظاہرے بھی کیے تھے۔ ان مظاہروں میں تقربیاً 20 افراد ہلاک ہوئے تھے۔