عراق اور شام کے ایک بڑے حصے پر قابض سخت گیر جنگجو گروپ داعش نے کہا ہے کہ اس نے ایک چینی اور نارویجیئِن شہری کو یرغمال بنا رکھا ہے۔اس نے ان دونوں کی رہائی کے لیے تاوان کا مطالبہ کیا ہے۔
اوسلو میں ناروے کی وزیراعظم ایرنا سولبرگ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ داعش نے ایک نارویجیئن شہری کو یرغمال بنا رکھا ہے لیکن انھوں نے کہا ہے کہ ناروے اس کی رہائی کے لیے کوئی تاوان ادا نہیں کرے گا۔
داعش نے اپنے انگریزی زبان میں شائع ہونے والے میگزین دابق میں ان دونوں یرغمالیوں کی تاوان کے بدلے میں رہائی کی پیش کش کی ہے۔ یہ میگزین ٹویٹر پر جاری کیا جاتا ہے۔البتہ اس نے یہ نہیں بتایا کہ ان دونوں کو کہاں سے اور کب پکڑا گیا تھا اور اب انھیں کہاں زیرحراست رکھا ہوا ہے۔
ان دونوں کے بارے میں داعش نے الگ الگ اشتہار شائع کیا ہے اور ان کی تصاویر کے ساتھ لکھا ہے کہ وہ برائے فروخت ہیں۔اس اشتہار میں داعش نے صلیبیوں ،کافروں اور ان کے اتحادیوں کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو مخاطب کر کے لکھا ہے کہ اس قیدی سے اس کی اپنی حکومت دستبردار ہوچکی ہے اور اس نے اس کو خرید کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔
اس کے بعد تصویر کے آخر میں لکھا ہے:”جو کوئی بھی اس کی رہائی کے لیے تاوان ادا کرنا چاہتا ہے تو وہ درج ذیل ٹیلی گرام نمبر پر رابطہ کرسکتا ہے۔یاد رہے کہ یہ پیش کش محدود مدت کے لیے ہے”۔
تاہم اشتہار میں داعش نے یہ نہیں بتایا ہے کہ چینی یا نارویجیئن شہری کی قیمتِ فروخت کیا ہے اور اس رقم کی ادائی کے لیے وقت کب ختم ہورہا ہے یا ہوگا۔اشتہار میں چینی یرغمالی کی شناخت فان جنگ ہوئی کے نام سے کی گئی ہے۔اس کی عمر پچاس سال ہے اور وہ کنسلٹینٹ ہے۔
ادھر اوسلو میں وزیراعظم سولبرگ نے نیوز کانفرنس کے دوران نارویجیئن یرغمالی کا نام اولے جان گرمسگارڈ افستاد بتایا ہے۔اس کی عمر اڑتالیس سال ہے۔وہ ٹرنڈھیم میں ایک جامعہ کے ساتھ وابستہ تھا۔اس کو جنوری میں شام میں پہنچنے کے فوری بعد اغوا کر لیا گیا تھا۔
انھوں نے ایک لگ بیان میں کہا کہ ”میں ناروے کے ایک شہری کے اغوا کی تصدیق کرسکتی ہوں۔اس کو شام میں قیدی کے طور پر رکھا جارہا ہے۔اس کیس کی پیروی کے لیے ایک کرائسیس سیل قائم کردیا گیا ہے”۔ ان کا کہنا تھا کہ ”یہ ایک سنجیدہ اور پیچیدہ معاملہ ہے ۔ہمارا مقصد اپنے شہری کو بحفاظت واپس ناروے لانا ہے”۔