ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ہر طرف راکھ اڑ رہی تھی اور ملبہ پڑوس کی عمارتوں پر گر رہا تھا۔ایک دیگر عینی شاہدنے کہا کہ بظاہر آگ 50 ویں منزل پر لگی تھی اور صرف ڈیڑھ گھنٹے میں 60ویں منزل تک پہنچ گئی۔ بظاہر یہ نظر آ رہا تھا کہ باہر کی جانب والے اپارٹمنٹس ہی اس کی زد میں آئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ‘ہرچند کہ آگ صبح تین بجے لگی لیکن لوگ اسے دیکھنے کے لیے اپنی عمارتوں کے بالاخانوں پر نکل آئے ۔’انھوں نے مزید کہا کہ ‘شہری تحفظ کا عملہ جلدی آیا اور انھوں نے کسی بھی ہلاکت سے انکار کیا ہے ۔ ہر کسی سے مکان بروقت خالی کروا لیا گیا اور ہمارے خیال سے سب ٹھیک ہے ۔’متاثرہ عمارت کے پڑوس کی عمارت پرنسس ٹاور میں رہنے والے سیرائل سیکریتیو نے بتایا کہ تمام رہائشیوں کو عمارت خالی کردینے کے لیے کہا گیا لیکن بعد میں انھیں واپس جانے کی اجازت دے دی گئی۔انھوں نے کہا: ‘میں نے چار منزلوں میں آگ دیکھی جو دیکھتے ہی دیکھتے 20 منزلوں اور پھر 60
منزلوں تک پھیل گئی۔ ہوا بہت تیز تھی اس لیے حالات قابو میں نہیں تھے ۔ ہمیں خوف تھا کہ ہوا آگ کو مزید پھیلا دے گی خیال رہے کہ یہ 79 منزلہ ٹارچ رہائشی عمارت سنہ 2011 میں رہنے کے لیے تیار ہوئی تھی۔ماضی میں بھی دبئی کی بلند عمارتوں میں آگ لگنے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل سنہ 2012 میں ایک 34 منزلہ عمارت تمویل ٹاور میں آگ لگی تھی جس میں ہلاکت تو کوئی نہیں ہوئی تھی البتہ اس کا سبب جلتی ہوئی سگریٹ تھی۔