’پیٹ بھرا تو سب بھلا‘کی کہاوت کو اگر صدیوں کے تجربات کا ایک نچوڑ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ مگر دوسری جانب، ‘خالی پیٹ میں کچھ بھی اچھا نہیں لگتا ہے’، جیسے محاورے کی صداقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔تاہم، غذا اور ذہنی کیفیت کے مابین تعلق کی وضاحت کا معاملہ خاصا پیچیدہ ہوتا ہے جسے سلجھانا خاصا مشکل ہے کہ آخر خوشی کے موقعے پرخوشی کے اظہار کے طور پر لوگ مٹھائی یا کیک ہی کیوں کھاتے ہیں؟لیکن، ذائقے کے حوالے سے ہمارا رویہ اس وقت خاصا حیران کن معلوم ہوتا ہے جب پریشانی اور اداسی کاعلاج بھی ہم اپنے من پسند روایتی مرغن کھانوں اور میٹھی اشیاء ے کرتے ہیں۔
علم کیمیا سے وابستہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ‘اسٹریس ایٹنگ’ کے جملے کے پیچھے ایک بڑی سچائی پوشیدہ ہے، کیونکہ دباؤ کی کیفیت میں من پسند کھانوں کی بھوک جاگ اٹھتی ہے۔ لیکن، خوشی کے احساس میں بھی خوش خوراکی سے پیچھا نہیں چھڑایا جا سکتا۔انھوں نے کہا کہ ایک مختصر مدت میں ذہنی دباؤ کی وجہ سے بھوک مر بھی سکتی ہے، کیونکہ تناؤ کی کیفیت میں دماغ ایڈرینلین غدود کوcorticotropin ہارمون جاری کرنے کا پیغام بھیجتا ہے جس سے بھوک عارضی طور پر دب جاتی ہے۔ لیک
ن، اگر دباؤ برقرار رہے تو کہانی تبدیل ہو جاتی ہے۔ اب ایڈرینلین غدود ایک دوسرا ہارمون کارٹی سول خارج کرتا ہیجو بھوک کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ماہرین کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اسٹریس کھانے پینے کی ترجیحات پر بھی اثرانداز ہونے لگتا ہے۔ متعدد مطالعوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جسمانی یا جذباتی تکالیف میں رہنے سے مرغن اور میٹھی غذا کھانے کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے اور اس حالت میں ہم اپنے من پسند کھانوں کا انتخاب کرتے ہیں اور خود کو خوش کرنے کے لیے زیادہ تر میٹھی اور تلی ہوئی چیزیں کھانا پسند کرتیہیں، جو غذائی خصوصیات کی بنا پر مضر ہو سکتی ہیں۔ماہرین ذہنی الجھن کا شکار افراد کے کھانے پینے کے اس رویہ کو ‘کمفرٹ ایٹنگ’ کا نام دیتے ہیں اور روایتی کھانوں سے قلبی وابستگی رکھنے والے افراد کو ‘کمفرٹ ایٹرز’ کہا جاتا ہے جو خوش رہنے کے لیے کھاتے ہیں۔ماہرین کے مطابق، جیسے ہی ہم میٹھے اور من پسند کھانے کھاتے ہیں تو ان کے اثرات سے دماغ کا وہ حصہ جو دباؤ اور جذبات کے ساتھ منسلک ہے اس کی سرگرمیاں رک جاتی ہیں جس کے رد عمل کے طور پر ہمیں اپنی غذا ذہنی تناؤ کے مقابلے میں سکون آور دوا معلوم ہوتی ہے۔ایک نئی تحقیق سے منسلک ماہرین نے متنبہ کیا ہے مسلسل پریشانی اور فکر مندی کے احساس سے لوگوں میں خاص طور پر میٹھا کھانے کی اشتہا جاگ اٹھتی ہے جس کی وجہ خاص اسٹریس ہارمونز ہیں جو میٹھی اشیاء کھانے کی طرف مائل کرتے ہیں۔
امریکی تحقیق کاروں کو زبان پر موجود ذائقے کے خلیات پر ذہنی دباؤ میں متحرک ہونے والے ایسے ہارمونز ملے ہیں جو پریشانی کی صورت میں لذت، مٹھاس اورنمکین ذائقے کی شناخت کرنے والیخلیات کو فعال بنا دیتے ہیں۔ماہرین نے کہا کہ یہ نتائج وضاحت کر سکیں گے کہ کیوں لوگ بے چینی کا شکار ہونے پر بلاوجہ بار بار فریج کھولتے ہیں یا پھر بسکٹ کے ڈبوں کو کھنگالنے لگتے ہیں اور یہ جاننے میں بھی مدد ملے گی کہ جب لوگ ذہنی اضطراب سے گزر رہے ہوتے ہیں تو کیوں بہت زیادہ میٹھا کھاتے ہیں۔ لیکن، اکثر ذہنی دباؤ کی حالت میں بسیار خوری کو نفسیاتی مسئلہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔
کیمیائی ماہر ماحولیات ڈاکٹر راک ویل پارکر نے کہا کہ خاص طور پر زبان پر موجود میٹھا ذائقہ پریشانی محسوس کرنے پر زیادہ متاثر ہوتا ہے، کیونکہ یاسیت کی حالت میں ہم فوری تسکین پرنظر رکھتے ہیں۔ لیکن، یہ ایک حقیقت ہے کہ من پسند کھانے کی طرف رغبت ہماری فطرت کا بھی حصہ ہے۔انھوں نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دباؤ کی کیفیت میں اسٹریس ہارمون glucocorticoids ذائقے کے ریسپٹرس (جو میٹھے یا نمکین دونوں ذائقوں کے احساسات کو کنٹرول کرتا ہے) اس کے میٹھا ذائقہ محسوس کرنے والے ریسپٹرس پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی لیے لوگوں کے اندر میٹھی چیز کی بھوک جاگ اٹھتی ہے، خاص طور پریہ ہارمونز ریسپٹرس ایسے پریشان افراد میں زیادہ ہو سکتے ہیں جو لذیذ اور میٹھا کھانے کے شوقین ہوتے ہیں۔اگرچہ ایک تصور یہ بھی عام ہے کہ پریشانی میں لوگ زیادہ تر چکنائی سے بھر پور غذاوں کا انتخاب کرتے ہیں یعنی اسٹریس ہارمون نمکین کھانوں کی بھوک پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ لیکن اس مطالعے میں نمکین ذائقے کے رسپٹرس پر اسٹریس ہارمون نہیں ملے ہیں شاید اس کی وضاحت میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ نمکین کھانے کے پراسس کے لیے اسٹریس دماغ کو اکساتا ہے۔’نیورسائنس جرنل لیٹر’ میں شائع ہونے والی یہ تحقیق فی لحال چوہوں پر کی گئی تھی جس سے معلوم ہوا کہ پریشان چوہوں کی زبان میں بھی ذائقے کے ایسے رسپٹرس موجود تھے مطالعے سے ظاہر ہوا کہ اسٹریس چوہوں کے ذائقے کے خلیات میں ۷۷ فیصد ہارمونز ریسپٹرس تھے ان چوہوں کے مقابلے میں جو مطمئن تھے۔