لکھنؤ۔ (نامہ نگار)۔ پاور کارپوریشن بھلے ہی دس ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی کی سپلائی کا دعویٰ کرتا ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ گاوؤں کو محض چار سے پانچ گھنٹے ہی بجلی مل رہی ہے وہ بھی کافی دیر تخفیف کے بعد ۔
پاور کارپوریشن افسران بھی اس بات کو دبی زبان میں مانتے ہیں کہ گاوؤں کو چھ گھنٹے ہی بجلی مل رہی ہے۔ ایسے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ریاست میں بجلی سپلائی کی حالت کیا ہے۔ پیک آورس یعنی شام کے ۵ بجے سے ۹ بجے تک ریاست میں بجلی کی مانگ تقریباً ۱۳۵۰۰ میگاواٹ سے لیکر ۱۴۰۰۰ میگاواٹ کے درمیان ہوتی ہے جبکہ فراہمی محض ۱۰۵۰۰ میگاواٹ ہے۔ یہ صورتحال پاور کارپوریشن کے اعلیٰ افسران کی ناکامیوں کو اجاگر کرتی ہے۔
ریاستی بجلی صارفین بورڈ کے صدر اودھیش کمار ورما نے وزیر اعلیٰ سے در
خواست کی کہ موجودہ نظام میں اعلیٰ پیمانے پر تبدیلی کئے جانے کی ضرورت ہے جس کے بعد ہی سپلائی میں بہتری ہو سکے گی۔ مسٹر ورما نے مطالبہ کیا کہ ریاست میں بجلی سپلائی کی بہتری کیلئے کابینہ کے ممبران کی ایک کمیٹی بنائی جانی چاہئے تاکہ وہ حقیقت کا پتہ لگا سکیں۔ مسٹر ورما نے کہا کہ توانائی حلقہ میں اتنا بڑا بجلی بحران سابقہ میں کبھی نہیں رہا۔ ریاست کے عوام کابرا حال ہے۔ دوسری جانب پاور کارپوریشن افسران کے تمام دعوے ناکام ہو رہے ہیں۔ باوجود اس کے اعلیٰ افسران مسائل سے جلد نجات دلانے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ توانائی محکمہ کے افسران بھی اپنے مستقل جلسے کرنے میں مصروف ہیں جبکہ اس وقت ان کو بجلی بحران سے عوام کو راحت دلانے کے کام کی اسکیم بنانی چاہئے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران غور کیا جائے تو صرف صارفین کے کھاتے میں بجلی حلقہ میں مہنگائی ہی آئی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ ریاستی حکومت کی جانب سے یہ تجویز بنوائی جائے کہ پیک آورس میں بجلی کاکم استعمال کرنے کیلئے کم سے کم بجلی خرچ کرنے والے ادارے اپنی بجلی بچت پر توجہ دیں۔ اس کیلئے محکمہ کی جانب سے ہدایت جاری کی جانی چاہئے۔