انڈیا کے شہر گجرات کے دلتوں نے درجنوں مردہ گائیوں کو ایک ضلع کلکٹر کے دفتر اور شہر کی سڑکوں پر پھینک کر احتجاج کی ایک نئی تاریخ لکھی ہے۔ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی مقدس گائیوں، خواہ وہ مری ہوئی ہی کیوں نہ ہوں کی بے حرمتی کرنے کی جرات اس سے پہلے شاید ہی کسی نے کی تھی۔
اس سے پہلے ریاست کے اونا شہر میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی ایک تنطیم کےکارکنوں نے سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں ایک دلت خاندان کے کئی افراد کو سرعام زدو کوب کیا اور انھیں رسیوں سے باندھ کر شہر میں ان کا جلوس نکالا تھا۔
بھارت میں دلتوں کی آبادی 16 فیصد ہے۔ مؤرخین دلتوں کو بھارت کا اصل باشندہ قرار دیتے ہیں۔ تاریخی اور سماجی اعتبار سے وہ ہندو مذہب کا ہی حصہ ہیں لیکن ہندوؤں کے ذات پات کے نظام میں انھیں تمام ذاتوں سے نیچا قرار دیا گیا اور غلاظت اورگندگی کے سارے کام انھیں سونپ دیے گئے۔ انھیں اچھوت قرار دیا گیا۔
گذشتہ ڈھائی ہزار برس سے بھارت میں دلتوں کے خلاف پورے تسلسل کے ساتھ جس طرح کا غیر انسانی رویہ اختیار کیا گیا اور جس طرح کی تفریق برتی گئی اس کی شاید دنیا کی کسی تہذیب میں مثال نہیں ملتی۔ دلت دانشوروں کا کہنا ہے کہ ذات پات پرمبنی اس برہمنی نظام میں دلتوں کے خلاف تفریق، نفرت اور غیر انسانی برتاؤ کو مذہب کا تقدس حاصل تھا۔ لوگ مذہبی فریضہ سمجھ کر دلتوں کےساتھ تفریق برتتے رہے۔
آزادی کے بعد جب ایک جمہوری آئین اختیار کیا گیا تو دلتوں کو بھی برابر کا حق ملا۔ ملک کے دور اندیش اور جمہوریت پسند رہنماؤں نے صدیوں کے مظالم اور جبر کےاثرات کو زائل کرنے کےلیے دلتوں کو پارلیمنٹ، اسمبلیوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن دی تاکہ وہ اوپر آ سکیں۔ لیکن ریزرویشن کے ساتھ ساتھ يہ شرط بھی عائد کر دی گئی کہ دلت اگر دوسرا مذہب اختیار کرتے ہیں تو ریزرویشن کی مراعات ان سے لے لی جائیں گی۔ اس کا مقصد انھیں ہندو مذہب ترک کرنے سے روکنا تھا۔
آزادی کے 65 برس بعد ریزرویشن اور جمہوری آئین کی بدولت دلت اوپر آ رہے ہیں۔ پہلی بار دلتوں میں ایک بااثر، اور تعلیم یافتہ مڈل کلاس پیدا ہوئی ہے۔ فیس بک، واٹس ایپ، یو ٹیوب، ٹویٹر اور انسٹاگریم جیسے سوشل میڈیا نے انقلاب برپا کردیا ہے۔ آج گجرات کے ظلم کی ویڈیو لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے۔ ہریانہ کےواقعے پر بہار اور اتر پردیش میں مظاہرے ہونے لگتے ہیں۔ دلتوں پر مظالم کے خلاف احتجاج کی بازگشت پارلیمنٹ کے ایوانوں میں گونجتی ہے۔
بی جے پی اور آر ایس ایس ایک عرصے سے دلتوں کو ہندو مذہب کے اصل دھارے میں لانے کے لیے سخت کوشاں ہیں۔ لیکن سیکولر، دلت دانشوروں اور کارکنوں کا خیال ہے کہ آر ایس ایس کا ہندوتوا کا تصور بنیادی طور پر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی اجارہ داری کی کمزور پڑتی ہوئی گرفت کو مضبوط کرنا ہے۔
گجرات میں مردہ گائیوں کی لاشوں کے ساتھ احتجاج دلتوں کے اعتماد اور جارحانہ تیور کا غماز ہے۔ یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ آر ایس ایس اور اس کی ہمنوا ہندو تنطیمیں ایک عرصے سے جو دلتوں کواپنے پرچم تلے یکجا کرنے کی کوشش کر رہی تھیں اس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ دلتوں کو اب کسی کی قیادت کی ضرورت نہیں اب وہ خود قیادت کرنےکی دہلیز پر ہیں۔
ڈھائی ہزار برس کے جبر اور بھارتی سماج میں برابری کا درجہ حاصل کرنے کی طویل تحریک کےبعد دلت برادری اس وقت بھارت کی سب سےزیادہ با شعور اورسیاسی طور پر بیدار اور متحرک برادری ہے۔ دلت اب بھارت کی سیاست میں ایک طاقتور انفرادی سیاسی طاقت بن کر ابھر رہے ہیں۔ وہ اب برابری کے لیے نہیں بھارت پر حکومت کی سوچ رہے ہیں۔