ممبئی: ہندوستانی سنیما میں حب الوطنی پر مبنی فلمیں اور نغمے ایک اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں اور آج بھی ان فلموں اور نغموں کے ذریعے حب الوطنی کے جذبے کو بلند کیا جاتاہے ۔
ہندی فلموں میں حب الوطنی فلمیں اور نغمے 1940 کی دہائی سے شروع ہوئے ۔ ڈائریکٹر گیان مکھرجی کی 1940 میں آئی فلم ‘بندھن ’ یسی پہلی فلم تھی جس میں ملک کی محبت کی روح کو سلور اسکرین پر دکھایا گیا تھا۔ یوں تو فلم بندھن میں شاعر پردیپ کے لکھے تمام نغمے مقبول ہوئے لیکن ‘چل چل رے نوجوان’ کی دھن والے گیت نے آزادی کے دیوانو ں میں ایک نیا جوش بھرنے کا کام کیا
سال 1943 میں حب الوطنی کے جذبے پر مبنی فلم قسمت ریلیز ہوئی۔ فلم ‘قسمت’ میں پردیپ کے لکھے گیت: آج ہمالیہ کی چوٹی سے پھر ہم نے للکارا ہے ‘،’ دور ہٹو اے دنیا والوں ہندوستان ہمارا ہے ‘ جیسے گیتوں نے آزادی کی راہ پر بڑھنے والوں کے لئے حوصلہ افزائی کی۔
یوں تو ہندوستانی سنیما کی دنیا میں شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اب تک نہ جانے کتنے نغمے آئے ہیں۔ لیکن ‘اے میرے وطن کے لوگوں ذرا آنکھ میں بھر لو پانی ، جو شہید ہوئے ہیں ان کی ذرا یاد کرو قربانی’ ایسا گیت ہے ، جسے سن کر اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے ۔
سال 1952 میں آئی فلم ‘ آنند مٹھ’ کا گیتابالي پر لتا منگیشکر کی آواز میں فلمایا گیت ‘وندے ماترم’ آج بھی ناظرین اور سامعین کے دل و دماغ میں ہے ۔اسی طرح فلم ‘جاگیرتی’ میں ہیمنت کمار کی موسیقی میں محمد رفیع کی آواز میں ‘ھم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے ‘سامعین میں حب الوطنی کے جذبے کو بیدار کرتا ہے ۔
آواز کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع نے کئی فلموں میں حب الوطنی کے نغموں کو اپنی آواز دی ہے ۔ ان نغموں میں ‘یہ دیش ہے ویر جوانوں کا’، ‘وطن پہ جو فدا ہوگا امر وہ نوجواں ہوگا۔’، ‘اپنی آزادی کو ہم ہرگز مٹا سکتے نہیں ‘،’ اس ملک کی سرحد کو کوئی چھو نہیں سکتا جس ملک کی سرحد کی نگاھباں ہیں آنکھیں ‘،’. آج گا لو مسکرا لو محفلیں سزا لو ‘،’ میرے دیش پریمیوں آپس میں پریم کرو دیش پریمیوں ‘وغیرہ.
شاعر پردیپ کی طرح ہی پریم دھون کو بھی ایسے نغمہ نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جن کے ‘اے میرے پیارے وطن’، میرا رنگ دے بسنتی چولا ‘،’. اے وطن اے وطن تجھ میری قسم ‘، جیسے حب الوطنی نغمے سن کر دل و دماغ میں ایک جذبہ کو بلند کرتے ہیں۔
فلم کابلي والا میں گلوکار منا ڈے کی آواز میں پریم دھون کا یہ گیت ‘اے میرے پیارے وطن اے میرے بچھڑے چمن’ آج بھی سامعین کی آنکھوں کو نم کر دیتا ہے . ان سب کے ساتھ سال 1961 میں پریم دھون کی ایک اور سپر ہٹ فلم ‘ہم ہندوستانی’ ریلیز ہوئی جس کا گیت ‘چھوڑو کل کی باتیں کل کی بات پرانی’ سپر ہٹ ہوا۔
سال 1965 میں ڈائریکٹر پروڈیوسر منوج کمار کے کہنے پر پریم دھون نے فلم ‘شہید’ کے لیے موسیقی دی۔ یوں تو فلم شہید کے تمام نغمے سپر ہٹ ہوئے لیکن ‘اے وطن اے وطن’ اور ‘میرا رنگ دے بستي چولا’آج بھی سامعین شدت کے ساتھ سنتے ہیں۔
چیتن آنند کی فلم حقیقت سال 1965 میں ریلیز ہوئی جو ہند ۔چین جنگ پر مبنی فلم تھی۔ اس فلم میں محمد رفیع کی آواز میں کیفی اعظمی کا لکھا یہ نغمہ ‘کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو اب
تمہارے حوالے وطن ساتھیو ‘آج بھی سامعین میں حب الوطنی کے جذبے کو بلند کرتا ہے ۔
حب الوطنی سے معمور فلمیں بنانے میں منوج کمار کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے . ‘شہید’، ‘اپکا ر ‘، ‘پورب اور پچھم ‘ کرانتی ‘ جیسی فلموں کے نغمے سنکر آج بھی سامعین کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ جے ۔پي دتہ اور انل شرما نے بھی حب الوطنی کے جذبے پر مبنی کئی فلمیں بنائی ہیں۔
اسی طرح نغمہ نگاروں نے کئی فلموں میں حب الوطنی پر کئی نغمہ بنائے ۔ ان میں ‘جہاں ڈال ڈال پر سونے کی چڑیا کرتی ہیں بسیرا وہ بھارت دیش ہے میرا’، ‘اے وطن اے وطن تجھ میری قسم’، ‘ننھا منا راہی ہوں دیش کا سپاہی ہوں ‘،’ ہے پریت جہاں کی ریت سدا میں گیت وہاں کے گاتا ہوں ‘،’ میرے دیش کی دھرتی سونا اگلے ‘،’ دل دیا ہے جاں بھی دیں گے اے وطن تیرے لئے ‘،’ بھارت ہم کو جا ں سے پیارا ہے ‘ ، ‘یہ دنیا ایک دلہن، دلہن کے ماتھے کی بندیا یہ میرا انڈیا’، ‘سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ‘، ‘پھر بھی دل ہے ہندوستانی’، ‘زندگی موت نہ بن جائے سنبھالو یارو’ وغیرہ شامل ہیں۔