وسطی صوبے حماہ کے قصبے کفر زیتا میں 12 اپریل کو زہریلی گیس کے حملے سے متاثرہ ایک خاتون آکسیجن ماسک کے ذریعے سانس لے رہی ہے
شامی حزب اختلاف کے کارکنان کا کہنا ہے کہ صدر بشارالاسد کی وفادار فورسز نے دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے الحرستا میں ایک مرتبہ پھر زہریلی گیس کا استعمال کیا ہے۔
العربیہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق زہریلی گیس کے حملے سے متاثرہ چار افراد کی فوٹیج انٹرنیٹ پر پوسٹ کی گئی ہے۔ایک پس پردہ آواز اس حملے کی تاریخ بتارہی ہے اور یہ کہہ رہی ہے کہ اسدی فورسز نے الحرستا میں زہریلی گیس کا استعمال کیا ہے۔البتہ اس میں اس نئے حملے کے نتیجے میں کسی ہلاکت کی کوئی اطلاع نہیں دی۔
اسی فوٹیج میں یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ الحرستا میں گذشتہ جمعہ کو بھی کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تھا اور اس ماہ میں شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا یہ حملہ ہے۔
گذشتہ ہفتے حزب اختلاف کے اخباری ذریعے شام نیوزنیٹ ورک نے دمشق کے اس نواحی علاقے الحرستا میں سرکاری فوج کے شہریوں پر زہریلی گیس کے حملے کی اطلاع دی تھی اور کہا تھا کہ حملے کا شکار ہونے والوں کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے اور متعدد مقامی مکینوں کی حالت تشویش ناک ہے۔
شامی حزب اختلاف کے ارکان نے بشارالاسد کی حکومت پر حرستا ،جبر اور وسطی صوبے حماہ کے علاقے کفر زیتا میں کیمیائی ہتھیاروں کے متعدد حملوں کے الزامات عاید کیے ہیں۔
کفر زیتا سے تعلق رکھنے والے کارکنان نے گذشتہ ہفتے فیس بُک پر پوسٹ کی گئی تحریروں میں اسد رجیم پر شہریوں پر کلورین گیس استعمال کرنے کا الزام عاید کیا تھا جس کے نتیجے میں ایک سو سے زیادہ کیس سامنے آئے ہیں جبکہ سرکاری ٹیلی ویژن نے ایک نشریے میں دعویٰ کیا تھا کہ القاعدہ سے وابستہ باغی جنگجو تنظیم النصرۃ محاذ نے اس قصبے پر تباہ کن حملے کے لیے کلورین گیس استعمال کی تھی۔
امریکی اور برطانوی حکام اسدی فورسز پر جنوری اور اپریل کے درمیان دمشق کے نواح میں کیمیائی ہتھیاروں کے چار حملوں سے متعلق الزامات کی تحقیقات کررہے ہیں۔گذشتہ ہفتے اسرائیل کے ایک دفاعی عہدے دار نے بھی کہا تھا کہ اسد رجیم نے 27 مارچ کو شامی دارالحکومت کے نواحی علاقے الحرستا میں حزب اختلاف کے جنگجوؤں کو مضمحل کرنے کے لیے غیرمہلک زہریلی گیس استعمال کی تھی۔
دسمبر 2013ء میں اقوام متحدہ کے تحقیقات کاروں نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ جبر اور دمشق کے ایک اور نواحی علاقے غوطہ میں سیرن گیس کا استعمال کیا گیا تھا۔شامی حزب اختلاف نے صدر بشارالاسد کی حکومت پر اس حملے کا الزام عاید کیا تھا لیکن اسدی حکومت نے اس الزام کی تردید کی تھی۔
شامی حزب اختلاف کے اتحاد نے شہریوں پر زہریلی گیس اور کیڑے مار ادویہ کے حملوں کی مذمت کی ہے۔شامی اتحاد کے سیکریٹری جنرل بدرجاموس نے ایک بیان میں کہا کہ ”بشارالاسد کیمیائی ہتھیاروں کو تباہ کرنے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں اور وہ متعدد دی گئی ڈیڈ لائنز پر ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ چھوٹے پیمانے پر زہریلی گیس کا استعمال کررہے ہیں تا کہ عالمی برادری کی مذمت سے بچ سکیں”۔
ادھر وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے کہا ہے کہ امریکا کیمیائی ہتھیاروں کے امتناع کی تنظیم (او پی سی ڈبلیو) کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے کہ آیا شامی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو تباہ کرنے کے لیے 2013ء میں طے پائے معاہدے پر عمل درآمد کررہی ہے یا نہیں۔
واضح رہے کہ شامی حکومت نے پہلے سے طے شدہ معاہدے کے مطابق اپنے تیرہ سو ٹن کیمیائی ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانے کے لیے پانچ فروری کی ڈیڈ لائن تک بیرون ملک بھیجنا تھا لیکن وہ اس تاریخ تک تمام چھوٹے بڑے کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کے لیے بیرون ملک بھیجنے میں ناکام رہی تھی اور پھر اپریل کے آخر تک ایسا کرنے سے اتفاق کیا تھا۔
امریکا اورروس کے درمیان ستمبر 2013ء میں طے شدہ معاہدے کے تحت شام کے قریباً سات سو ٹن خطرناک ترین کیمیائی ہتھیار 31 دسمبر تک تباہ کرنے کے لیے ملک سے باہر منتقل کیے جانا تھے اور باقی پانچ سو ٹن کم خطرناک ہتھیاروں کو پانچ فروری تک منتقل کیا جانا تھا۔او پی سی ڈبلیو کے مطابق اس تاریخ تک شام کے صرف گیارہ فی صد کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کے لیے بیرون ملک منتقل کیا جاسکا تھا۔