دنیا کی 7 ارب سے زائد کی آبادی میں 50 اعشاریہ 4 فیصد مرد اور49 اعشاریہ 6 فیصد خواتین ہیں ، لیکن آباد ی کے علاوہ بھی مرد اور خواتین میں کئی نمایاں فرق ہیں ،جو ختم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جا رہیں ۔
پاکستان سمیت دنیا بھر کے 145 ممالک میں صنفی فرق کے حوالے سے ورلڈ اکنامک فورم کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جنسی فرق میں پاکستان کا شمار بدترین ممالک میں دوسرے نمبر پر ہوتاہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کی گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں پاکستان، بھارت، بنگلادیش، سعودی عرب، چین، برطانیہ، امریکا، روانڈا، مالی اور ایران سمیت دنیا کے 145 ممالک میں صنفی تفریق کا جائزہ لیا گیا ہے ۔عالمی تنظیم کی جانب سے دنیا بھر میں مردو خواتین کے درمیان تعلیم، صحت، سیاست اور معیشت کے معیار وں اور تفریق کو سامنے رکھ کر رپورٹ تیار کی گئی ہے۔
مرد و خواتین کو یکساں مواقع فراہم کرنے اور صنفی تفریق نہ رکھنے والے پانچ بہترین ممالک کا تعلق یورپ سے ہے جن میں سے آئس لینڈ پہلے، ناروے دوسرے، فن لینڈ تیسرے، سوئیڈن چوتھے اور آئرلینڈ پانچویں نمبر پر ہے۔پہلی بار صنفی تفریق نہ رکھنے والے ممالک میں وسطی افریقی ملک روانڈا شامل ہوا ہے جو خواتین کو زائد مواقع فراہم کرنے والے ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے۔ فلپائن ساتویں، سوئٹزرلینڈآٹھویں،سلووینیا نویں اور نیوزی لینڈ دسویں نمبر پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق آئس لینڈ میں ہر 2 اعلیٰ افسران میں سے ایک خاتون ہے۔ آئس لینڈ میں 67 فیصد مرد اور 37 فیصد خواتین اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ،لیکن پیشہ ور افراد میں خواتین کی تعداد مردوں سے زائد ہے۔ آئس لینڈ میں 43فیصد مرد جبکہ 57 فیصد خواتین ماہرانہ طور سے پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتی ہیں۔ یورپ کے اس ملک میں تعلیم کے شعبے میں مرد وخواتین کویکساں جبکہ صحت کے شعبے میں خواتین کو زیادہ سہولتیں فراہم ہیں۔ آئس لینڈ میں 59 فیصد مردسیاستدانوں کے مقابلے 41 فیصد خواتین سیاستدان ہیں جبکہ 44 فیصد وزارتیں خواتین کے قبضے میں ہیں۔
دنیا بھر میں صنفی تفریق کے 10 بدترین ممالک میں یمن پہلے، پاکستان دوسرے، شام تیسرے، چاڈ چوتھے، ایران پانچویں، اردن چھٹے، مراکش ساتویں، لبنان آٹھویں، مالی نویں اور مصر دسویں نمبر پر ہے۔
مرد و خواتین میں تعلیم، صحت، معیشت اور سیاست میں تفریق کے حوالے سے دنیا کے 145 ممالک میں بھارت 108 ویں، بنگلادیش64ویں، سعودی عرب 134 ویں،چین 91 ویں، متحدہ عرب امارات 119 ویں ، امریکہ 28 ویں، برطانیہ 18 ویں، فرانس15ویں جب کہ جرمنی 11 ویں نمبر پر ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق 145 ممالک میں صرف 4 افریقی ممالک میں مردوں سے زیادہ خواتین کام کرتی ہیں، جن میں سب سے زیادہ 88 خواتین روانڈا میں کام کرتی ہیں ،وہاں کام کرنے والے مردوں کی تعداد 86 فیصدہے۔روانڈا میں مردوں کے مقابلے خواتین کو صحت، تعلیم اور سیاست میں بھی زیادہ سہولتیں اور مواقع فراہم ہیں، روانڈا میں 64 فیصد خواتین پارلیمنٹ کا حصہ ہیں جبکہ وہاں کی 35 فیصد وزارتیں عورتوں کے ہاتھ ہیں۔موزمبیق میں 86 فیصد خواتین کے مقابلے 83 فیصد مرد کام کرتے ہیں۔ اس ملک میں مردوں کی شرح خواندگی زیادہ جبکہ خواتین کو صحت کی سہولتیں مردوں سے زیادہ دستیاب ہیں۔ 60 فیصدمرد سیاستدانوں کے مقابلے 40 فیصد خواتین سیاستدان ہیں اور 29 فیصدخواتین وزارتوں کے منصب پر فائز ہیں۔
جنسی تفریق کے حوالے سے پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا بدترین ملک ہے۔ پاکستان میں 86 فیصد مردوں کے مقابلے صرف 26 فیصد خواتین کو کام کرنے کے مواقع میسرہیں۔ پاکستان میں جہاں مردوں کی شرح خواندگی 70 فیصد ہے وہیں خواتین کی شرح 46 فیصد ہے۔پارلیمنٹ میں 79 فیصد مردوں کے مقابلے 21 فیصد خواتین ہیں جبکہ پاکستان میں 97 فیصد بڑے عہدے مردوں کے پاس ہیں اور محض 3 فیصد عہدے خواتین کے ہاتھوں میں ہیں، پاکستان میں 78 فیصد مردوں کے مقابلے میں صرف 22 فیصد خواتین ماہرانہ پیشہ ور طبقے میں شمار ہوتی ہیں۔
پڑوسی ملک بھارت میں 83 فیصد مردوں کے مقابلے 29 فیصد خواتین کام کرتی ہیں،وہاں 88 فیصد مرد پارلیمنٹرینز کے مقابلے 12 فیصد خواتین پارلیمنٹرینز ہیں جبکہ وہاں 22 فیصد وزارتیں خواتین کے ہاتھوں میں ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں مرد وخواتین کے درمیان تنخواہ کا فرق ختم ہونے میں ایک صدی سے زائد کا عرصہ لگے گا۔ دنیا کے کئی ممالک میں اس وقت خواتین وہ تنخواہ لینے پر مجبور ہیں جو آج سے دس سال پہلے مردوں کو ملتی تھی۔