بالی وڈ کے خان، شاید ہالی وڈ اور ہانگ کانگ سینما کی دنیا کیستاروں کے بعد، دنیا کے سب سے زیادہ مقبول فلمی ستارے ہیں۔ تینوں خانوں کی پیدائش
1965 میں ہوئی تھی یعنی تینوں ہی اس برس 50 برس کے ہو جائیں گے۔بھارتی فلمی دنیا پرگزشتہ 20 برسوں سے ان تینوں خانوں کا اثر رسوخ برقرار ہے۔ٹکٹ فروخت اور فلموں کی تعداد کے حساب سے دنیا کی دوسری سب سے بڑی فلمی انڈسٹری پر تین ادھیڑ عمر کے اداکاروں کا اجارہ داری قابل تعریف ہے، خاص کر تب جب نوجوان طبقہ پوری تفریحی دنیا کی توجہ کا مرکز ہو۔ایسے میں جدید دور کی ا
ن تینوں ہستیوں کی کامیابیوں اوراثرات سے متعلق بات چیت لازمی ہے۔خان جیسے مختصر نام سے افغان نڑاد ہونے کی آواز آتی ہے۔ لیکن بالی وڈ کا کوئی بھی خان دیکھنے میں پختونوں جیسا نہیں دکھتا، ان کا قد بھی اوسط یا اوسط سے کم ہی ہے۔تین برس پہلے جس اخبار میں میں کام کرتا تھا اس نے ایک سروے کرایا تھا کہ تینوں خانوں میں سب سے زیادہ مقبول اور کرشمہ ساز کون ہے؟یہ جاننے کے لیے ہم نے پوسٹ آفس والوں سے پتہ کیا کہ کس ہیرو کو سب سے زیادہ خط آتے ہیں۔ ہمیں پتہ چلا کہ سلمان خان کو باقی دونوں خانوں کو مجموعی طور پر جتنے خط یا پارسل آتے تھے اس سے قریب دوگنا زیادہ خط یا پارسل آتے تھے۔
ہم اس سے زیادہ حیران نہیں ہوئے کیونکہ سلمان کی مقبولیت کا ثبوت باندرا کے علاقے میں واقع ان کے مکان کے باہر روز ہی نظرآتا ہے۔ سلمان کی رہائش بینڈ سٹینڈ روڈ کے گیلیکسی اپارٹمنٹ میں ہے۔اس سڑک پر میں کئی بار ٹہلنے جاتا ہوں۔ سلمان کا گھر سڑک کے آغاز میں ہی ہے اور اسی سڑک کے اختتام پر شاہ رخ خان کابنگلہ ’منّت‘ ہے۔ شاہ رخ کے بنگلے پر شاید ہی کوئی نظر آتا تھا۔ ان کے بنگلے کی اونچی دیواریں بھی تاکنے جھانکنے والوں کی حوصلہ شکنی کرتی تھیں۔سلمان کا گھر سڑک کے آغاز میں ہی ہے اور اسی سڑک کے اختتام پر شاہ رخ خان کابنگلہ ’منّت‘ ہے۔ شاہ رخ کے بنگلے پر شاید ہی کوئی نظر آتا تھاسلمان کے فلیٹ کے سامنے سڑک کے دوسری جانب ہمیشہ ہی بہت سے لوگ یا اکثر ہی ایک بھیڑ موجود رہتی ہے۔ ان کے چاہنیوالوں کو اکثر ہی ان کے صبر کا پھل مل جاتا ہے جب سلمان سائیکل چلاتے نظر آتے ہیں یا ان کے گھر کا کوئی رکن باہر بالکونی میں آ جاتا ہے۔سلمان کے چاہنے والوں میں زیادہ تر مسلم نوجوان ہوتے ہیں جو ٹوپیاں پہنے ہوتے ہیں۔
سلمان کا کرشمہ زمینی ہے، ان ستاروں کے پیچھے چھپے اصل آدمیوں کے بارے میں کچھ جاننیکی مجھے اکثر خواہش ہوتی ہے۔بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ باندرا میں عامر خان کا گھر کہاں ہے اور انہیں بھی شاید یہی پسند ہے۔ عامر فلمی ستاروں والی تڑک بھڑک پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ ایک بار پالی ہل میں میں نیانہیں ماروتی 800 کار میں اپنی بیوی کرن راؤ کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا تھا۔عامر کو سمجھدار لوگوں کے ہیرو، شاہ رخ کے متوسط طبقے کے ہیرو اور سلمان کے عام لوگوں کے ہیرو ہیں۔عامر خان سوچنے سمجھنے والے ناظرین کے ہیرو ہیں۔ آخر، ان کے علاوہ چیتن بھگت کی کہانی میں کون جان ڈال سکتا ہے؟گزشتہ دس برس میں عامر نے صرف چھ فلموں میں بطور ہیرو کے کردار ادا کیا ہے، شاہ رخ نے 17 اور سلمان نے 27 فلموں میں۔فلموں کی یہ تعداد عامر کو سمجھدار لوگوں کے ہیرو، شاہ رخ کے متوسط طبقے کے ہیرو اور سلمان کے عام لوگوں کے ہیرو کی تصویر کی ہی عکاسی کرتی ہیں۔ان فنکاروں کی یہ تصویریں ان کی شخصیت کے مطابق ہیں اوراسی وجہ سے درست بھی ہیں۔ کار، قلم یا بسکٹ جیسی مصنوعات بنانے والی کمپنیاں شاہ رخ سے اشتہار کرانا پسند کرتی ہیں۔وہیں ڈالر بنیان اور ڈکسی سکاٹ بنیان کے اشتہارات سلمان خان کے حصے میں آتے ہیں۔ کوکا کولا نے اپنی مصنوعات میں جراثیم کش ملے ہونے کی خبریں آنے کے بعد اعتماد حاصل کرنے کے لیے عامر خان کا سہارا لیا۔عامر کی سنجیدہ حمایت میں کوئی گہرائی اور عزم نہیں ہے اس لیے ان کے بارے میں لکھنا مکمل بوریت ہے۔لیکن جب عامر نے نرمدا پر بنے ڈیم سے بے گھر ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے زمینی پروگراموں میں حصہ لیا تو وہ مصیبت میں پھنس گئے۔انھیں شاید امید ہی نہیں تھی کہ گجراتی لوگ ان کی اس حرکت سے کتنے ناراض ہو جائیں گے۔ انھیں اس بات کی بھی امید نہیں ہوگی کہ ان کی فلم ’فنا‘ کا بائیکاٹ کیا جائیگا۔ اس کے بعد سے انھوں نے اس مسئلے کو چھوڑ ہی دیا۔عامر کی سنجیدہ حمایت میں کوئی گہرائی اور عزم نہیں ہے اس لیے ان کے بارے میں لکھنا مکمل بوریت ہے۔ ان کے بارے میں زیادہ کچھ کہنے کو ہوتا نہیں ہے کیونکہ ایک مفکّر سے جو امید کی جاتی ہے وہ ان میں نہیں ہے۔بالی وڈ کے کسی سٹار سے سنجیدہ فکر رکھنے کی توقع کرنا شاید ناانصافی ہی ہے لیکن کیا کیا جائے۔ اپنی یہ تصویر انھوں نے خود ہی بنائی ہے۔تین خانوں میں سب سے مزیدار اور کرشماتی ہیں سلمان خان۔سنہ 2003 میں سلمان وجے مالیہ کے یاٹ ’دی انڈین پرنسز‘ پر کنگ فشر کیلنڈر کے افتتاح کے موقع پر موجود تھے۔میں نے ان پر غور کیا اور دیکھا کہ وہ امریکی مصنف فٹذگیرالڈ کے ناول ’ٹینڈر از دی نائٹ‘ کے ہیرو ڈک ڈاور جیسی پوزیشن میں تھے۔ انھوں نے سفید شرٹ اور جینز پہن رکھی تھی۔ان کے مطابق ان کے خلاف چل رہے مقدمے کی وجہ سے اشتہار دینے والے ان سے دور ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ بات غلط ہے کیونکہ کسی کو بھی ایسی باتوں سے فرق نہیں پڑتا۔ ان کی شبیہہ ہی عام لوگوں یعنی غریب طبقے کے سٹار کی ہے۔شاہ رخ نے سلمان خان سے کہا تھا ’تو کیا مارے گا؟ تو ہاتھ تو اٹھا، میں ماروں گا تجھے وہ بھی تیری پارٹی میں، اور تیریدوستوں کے سامنے۔‘سلمان غیر قانونی شکار کے معاملے میں جب عدالت میں حاضرہوئے تو انھوں نے سر پر ٹوپی لگا رکھی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے ایسا ہمدردی حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا۔ لیکن ان کے اس عمل کے جذباتی اثر سے انکار آسان بات نہیں ہے۔عام طور پر سلمان شاید ہی کبھی ٹوپی میں نظر آئے ہوں اورخان خاندان اپنی گنگا جمنی تہذیب کے حوالے سے فخر کا اظہارکرتا رہا ہے۔تینوں خان تمام روایات کا احترام کرتے ہیں اور اپنے مذہبی عقیدے کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ شاہ رخ اور عامر نے ہندو لڑکیوں سیشادیاں کی ہیں۔شاہ رخ کا کرشمہ ایک طرح سے پراسرار ہے کیونکہ ان کے اندر کی شخصیت ہمیشہ چھپی رہتی ہے۔ وہ اپنے شائقین اور میڈیا سے آسانی سے ملتے ہیں اور اس کا مزہ لیتے ہیں۔ سیلیبرٹی ہونے کا وہ مکمل لطف اٹھاتے ہیں۔ایس ایم ایس چٹکلوں میں شاہ رخ پر ہم جنس پرستی کی طرف جھکاؤ رکھنے کے تعلق سے مذاق ہوتے ہیں لیکن لگتا نہیں کہ اس میں کوئی حقیقت ہے۔جب ایک پارٹی میں سلمان سے اس بات پر ان کا جھگڑا ہوگیا کہ دونوں میں کون زیادہ بڑا گیم شو کا میزبان ہے، تو سلمان کے مکّہ مارنے کی دھمکی سے بھی وہ پیچھے نہیں ہٹے۔انھوں نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا ’تو کیا مارے گا؟ تو ہاتھ تو اٹھا، میں ماروں گا تجھے وہ بھی تیری پارٹی میں، اور تیریدوستوں کے سامنے۔‘اپنی باڈی کے لیے مشہور سلمان بیٹھے ہی رہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ شاہ رخ نے خود کو دہلی کا غنڈہ کہا تھا۔کسی بھی اور ملک کے مقابلے میں بھارت میں اس بات کا آپ کوسب سے زیادہ فائدہ ملتا ہے کہ آپ کس گھر میں پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن بالی وڈ کے لیے یہ مکمل طور پر درست نہیں ہے سلمان، عامر اور شاہ رخ خان کا شیشے میں ہمارے فلمی ستاروں کا نظارہ غضب ہی نظر آتا ہے۔روڈیارڈ کپلنگ نے اپنے ناول ’کم‘ میں لکھا ہے کہ بھارت دنیا کا واحد جمہوری سماج ہے۔ شاید یہ سچ ہو لیکن یہ سماج معیار کوسب سے اوپر رکھنے والا معاشرہ نہیں ہے۔کسی بھی اور ملک کے مقابلے میں بھارت میں اس بات کا آپ کوسب سے زیادہ فائدہ ملتا ہے کہ آپ کس گھر میں پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن بالی وڈ کے لیے یہ مکمل طور پر درست نہیں ہے۔اگر آپ کی پیدائش کسی فلمی خاندان میں ہوئی ہو تو آپ کوزیادہ آسانی سے موقع مل جاتا ہے لیکن آخر کار عوام ہی اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ کرشمہ کس میں زیادہ ہے۔تینوں خانوں نے دنیا کے سب سے مشکل کاروبار میں فتح کا پرچم لہرایا ہے اور اس سے بھی ان کے کردار کا ایک الگ ہی پہلو اجاگر ہوتا ہے۔