اس ہفتے جمیکا کے دورے کے دوران برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرن کو نہ صرف انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ان سے مطالبہ کیا گیا کہ ماضی میں غلاموں کی تجارت میں ملوث رہنے کی وجہ سے برطانیہ کو اپنے کیے پر معافی مانگنی چاہیے اور سیاہ فام لوگوں کو اس زیادتی کے ازالے کے لیے معاوضہ بھی دینا چاہیے۔ برطانوی حکومت نے جمیکا کے اس مطالبے کو رد کر دیا ہے، لیکن برطانیہ واحد ملک نہیں ہے جس نے ایسا کیا ہے۔ بی بی سی کی عالمی سروس کی نامہ نگار برائے معاشرتی امور ولیریا پراسو نے ذیل میں اس بحث کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔
’’ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرن نے جمیکا کے دورے کا آغاز اسی امید پر کیا تھا کہ وہ وہاں برطانیہ کے لاکھوں پاؤنڈ کے اس منصوبے کا فخریہ اعلان کریں گے جس کے تحت برطانیہ جمیکا میں کئی ترقیاتی کاموں کا آغاز کرے گا اور اس دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے کئی سمجھوتوں پر دستخط ہوں گے۔
لیکن ہُوا اس کے برعکس۔
90 فیصد سے زیادہ افریقی النسل آبادی والے جمیکا میں ہر کسی کی نظریں اور کان اسی بات پر لگے ہوئے تھے کہ برطانوی وزیر اعظم اپنے ملک کے ماضی کے انتہائی شرمناک گناہ کے بارے میں کیا کہیں گے، یعنی غلاموں کی تجارت پر وہ معافی مانگیں یا نہیں۔
ڈیوڈ کیمرن نے معافی ضرور مانگی، لیکن ان کے الفاظ وہ نہیں تھے جس کی توقع انسانی حقوق کے مقامی کارکن کر رہے تھے۔
’مجھے امید ہے کہ ہم تاریک دنوں کے بعد اکھٹے ایک طویل سفر کرنے والے دو دوستوں کی طرح اس دردناک یاد کو بھلا کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘
جمائکا کی وزیر اعظم پورٹیا سِپمسن ملر نے ذاتی طور برطانوی وزیراعظم کے سامنے تلافی کا معاملہ اٹھایا.لیکن وزیر اعظم کے ان الفاظ کے بعد بھی لگتا نہیں کہ اس معاملے پر تنازع اتنی جلدی ختم ہونے جا رہا ہے ۔ غلاموں کی تجارت کے حوالے سے جمیکا میں جو کچھ آج کہا سنا جا رہا ہے وہ دراصل انسانی حقوق کے علمبرداروں کی برسوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ ان کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ برطانیہ 18ویں صدی کی اپنی ان نوآبادیاتی پالسییوں کی مالی تلافی کرے جس کے تحت ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیاد افریقیوں کو بحرالکاہل کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ہونے والی غلاموں کی تجارت میں خریدا اور بیچا گیا۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ملک جس نے مفت کے مزدوروں سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا، وہی ملک آج اپنی غلطی کو دھونے سے اتنا کترا کیوں رہا ہے؟
دُور کے رشتہ دارجمیکا میں مالی تلافی کے تمام دعوے عمومی نوعیت کے نہیں تھے، بلکہ ان میں کچھ ایسے دعوے بھی تھے جن کے لیے وہ ڈیوڈ کیمرن کو ذاتی طور پر ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ جمیکا میں کچھ لوگوں نے اس معاملے میں جس شخص کا نام سرفہرست رکھا اس کا تعلق خود ڈیوڈ کیمرن کے اپنے خاندان سے ہے، یعنی جنرل سر جیمز ڈف جو کہ وزیر اعظم کے دور کے کزن بنتے ہیں۔
تایخی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ 19ویں صدی میں اس شخص نے اس وقت معاوضے کی شکل میں خوب دولت بنائی جب برطانیہ نے غلامی کو غیر قانونی قرار دے دیا اور جنرل سر جیمز ڈف نے اپنے 200 غلام آزاد کر دیے جن کا تعلق جمیکا سے تھا۔
لیکن یوں دولت بنانے والوں میں ڈف اکیلے نہیں تھے، بلکہ برطانوی اشرافیہ میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں تھی جنھوں نے غلاموں کی تجارت کے منافع بخش کاروبار سے اپنی امارت کی بنیادوں کو مضبوط کیا تھا۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں برطانوی اشرافیہ نے جو دولت کمائی اس کا پانچواں حصہ غلاموں کی تجارت سے ہی کمایا گیا تھا۔
غلاموں کے مالکوں نے مفت کی مزدوری سے خوب دولت بنائی
صرف اکیلے برطانوی تاجروں نے مغربی افریقہ سے 30 لاکھ افراد کو اٹھایا اور انھیں جزائر غرب الہند کیریبئن) اور امریکہ کے ساحلوں پر فروخت کیا جہاں ان سے کھیتوں اور باغات میں نہایت ظالمانہ حالات میں کسی معاوضے کے بغیر مزدوری لی جاتی تھی۔ ان غلاموں کی مزدوری کے بل بوتے پر کھیتوں اور باغات کے مالکان نے جتنی زیادہ دولت کمائی اس کا تو تخمینہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔
یہ ان دلائل کا لُب لباب ہے جو جزائر غرب الہند کے پندرہ ممالک کے مشترکہ ’کمیشن برائے تلافی‘ (کیریکوم) کے چیئرمین ہلاری بیکلز استعمال کر رہے ہیں۔ انہی دلائل کی بنیاد پر یورپ سے ان کا مطالبہ ہے کہ وہ نوآبادیاتی دور کی اپنی غلطیوں کی تلافی کرے۔
’ہم خیرات کا مطالبہ نہیں کر رہے اور نہ اس قسم کے کسی گھٹیا کردار کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہمارا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ہمیں جس صورت حال کا سامنا ہے آپ اس کے بنانے میں اپنے حصے کی ذمہ داری قبول کریں۔ آپ کو چاہیے کہ یہ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ان ممالک کی بحالی کے مشترکہ پروگرام میں مالی معانت کریں۔‘
یہ الفاظ اس مضمون سے لیے گئے ہیں جو ہلاری بیکلز نے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرن کے حالیہ دورے کے موقع پر معروف مقامی اخبار ’جمیکا آبزرور‘ میں لکھا۔
’کیریکوم کمیشن‘ سنہ 2013 میں قائم کیا گیا تھا اور اس کا مقصد ان یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنا تھا جو غلاموں کی تجارت میں ملوث رہے ہیں۔ برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ کا نام ان ممالک میں سرفہرست ہے۔
برطانوی تاجروں نے اکیلے 30 لاکھ سے زیاد افریقیوں کو بحرالکاہل کے ساحلوں پر خریدا اور بیچا
اس کمیشن کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ یورپی ممالک سے معاوضہ لینے کے بعد اس سارے معاملے کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں لے جائے۔ یہ بات کسی دھمکی سے کم نہیں۔
افسوس ہے، لیکن شرمندگی نہیں
کمیشن کے مطالبات اپنی جگہ، لیکن برطانیہ نے کسی قسم کا معاوضہ دینے سے انکار کر دیا اور برطانیہ کا کہنا ہے کہ ’یہ کوئی درست حمکت عملی‘ نہیں ہے۔
ڈیوڈ کیمرن پہلے برطانوی رہنما نہیں ہیں جنھوں نے یہ جواب دیا ہو۔ سنہ 2006 میں وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے بھی ماضی میں غلاموں کی تجارت میں برطانیہ کے کردار پر اپنے ’گہرے دکھ‘ کا اظہار تو ضرور کیا تھا لیکن وہ بھی کسی قسم کی تاریخی شرمندگی تسلیم کرنے سے پہلے رُک گئے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب ٹونی بلیئر کے بیان سے محض چھ ماہ پہلے برطانیہ کے سب سے بڑے کلیسا ’چرچ آف انگلینڈ‘ نے تسلیم کر لیا تھا کہ برطانیہ نے غلاموں کی تجارت کے غیر انسانی کاروبار سے جو منافع کمایا وہ ایک غلط حرکت تھی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر برطانیہ کے اس سرکاری موقف کے پیچھے کیا سوچ کارفرما ہے؟
لسانیات کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اپنی کسی حرکت پر ’شرمندہ ہونے‘ اور اس کی ’ذمہ داری قبول‘ کرنے میں فرق ہوتا ہے۔
اور اگر آپ الفاظ کے ہیر پھیر سے نکل آئیں تو آپ کو اس سارے معاملے کے معاشی پہلو بھی نظر آئیں گے۔
تـجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ برطانوی حکومت ذمہ داری قبول کرنے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرے اس لیے کرتی ہے کہ ذمہ داری قبول کرنے کی صورت میں اس پر مالی ہرجانے کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔
کیریکوم کمیشن کا مطالبہ ہے کہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں افریقی ممالک کی مدد کی جائےحیرت کی بات یہ ہے کہ غلاموں کی تجارت میں اگر کسی کو آج تک معاوضہ ملا ہے تو وہ ان لوگوں کو ملا ہے جنھوں نے 46 ہزار افراد کو غلام بنا رکھا تھا۔ سنہ 1833 میں غلامی کے خاتمے کا قانون بننے کے بعد برطانوی حکومت نے ان افراد کو تین کروڑ امریکی ڈالر کے برابر رقم ادا کی جن کا موقف یہ تھا کہ غلاموں کو آزاد کرنے سے ان کے کاروبار کو مالی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
آج یہ رقم تین ارب امریکی ڈالر کے برابر ہو گی۔ اتنی خطیر رقم کے مقابلے میں جو پیسے غلاموں کو دیے گئے وہ خاک برابر تھے۔
اگر آپ غلامی کے مالی معاوضے کا تخمینہ لگانا چاہیں تو آپ کے پاس اس کا ایسا کوئی میزان یا فارمولا نہیں ہے جس پر سب کا اتفاق ہو۔مثلاً یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ 19ویں صدی میں ایک مزدور کی تنخواہ کیا ہونا چاہیے تھے اور اس تنخواہ کے عوض آج اسے کتنا ہرجانہ ادا کیا جانا چاہیے۔
سنہ 1997 میں ایک افریقی کمیشن کا مطالبہ تھا کہ ’مغرب‘ افریقہ کو معاوضے میں 777 ٹریلین ڈالر ادا کرے۔ یہ ان دنوں امریکی قومی پیداوار سے 70 گنا زیادہ رقم بنتی تھی۔ اسے لیے اس مطالبے کو فوری طور پر رد کر دیا کیونکہ ہر کسی کا خیال تھا کہ اتنی بڑی رقم کا مطالبہ بالکل بے تکی بات ہے۔
غلام برائے فروخت: امریکی نو آبادیوں میں نئے غلاموں کی آمد کا ایک اشتہارکیریکوم کمیشن نے مالی تلافی کا جو مطالبہ سامنے رکھا ہے اس میں انھوں نے کسی خاص رقم کی بات نہیں ہے۔ بلکہ کمیشن کا کہنا ہے کہ جزائر غرب الہند کے ممالک پر موجودہ قرض کو معاف کیا جائے اور ترقی یافتہ مغربی ممالک اِن غریب ممالک میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں مالی امداد کریں۔
کمیشن نے اس حوالے سے جو منصوبہ بنایا ہے وہ ہر مغربی ملک کے لیے مختلف ہے اور اس فارمولے کی بنیاد انھوں نے مالی معاوضے کے اس منصوبے پر رکھی ہے جس کے تحت جرمنی نے ہولوکاسٹ کے دوران یہودیوں کے قتل عام کی تلافی کے طور پر اسرائیل کو بھاری رقم دی ہے۔
جدا جدا راستے
دریں اثنا، دورِ غلامی کی تلافی کے لیے سرگرم دیگر کارکنوں اور تنظیموں نے اپنے اپنے طریقے وضع کیے ہیں۔ مثلاً خود کو حضرت ابراہیم کی نسبت دینے والے اور سنہ 1930 کے عشرے میں جمیکا میں پروان چڑھنے والے فرقے ’راستافیرین‘ کا کہنا ہے وہ ممالک جو ماضی میں غلاموں کی تجارت میں ملوث رہے ہیں، وہ اس قبیلے کے پانچ لاکھ لوگوں کو دوبارہ افریقہ میں بسانے کے لیے 129 ارب ڈالر ادا کریں۔
اس کا تقابل آپ خود برطانوی حکومت کے اس معاہدے سے کر سکتے ہیں جو سنہ 2012 کے ایک عدالتی فیصلے کے بعد طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت برطانیہ ہر اس شخص کو مالی معاوضہ دینے پر رضامند ہو گیا تھا جسے سنہ 1950 کی دہائی میں کینیا میں ماؤ نواز تحریک کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ماضی بعید کی باتیں؟اگر برطانوی حکومت یہ بات تسلیم کر بھی لیتی ہے کہ اخلاقی طور پر اسے اپنے ماضی کے کردار کی تلافی کرنی چاہیے، پھر بھی اس بات کے امکانات کم ہیں کہ حکومت اس معاملے میں کسی فریق کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔
نہ صرف برطانیہ، بلکہ فرانس کے موجودہ صدر بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ مالی تلافی ایک ’ناممکن‘ بات ہے، بالکل اسی طرح جیسے آج غلامی کے دور کی ’تصحیح‘ نہیں کی جا سکتی۔اقوام متحدہ کے تحت ’افریقی النسل اقوام کی بین الاقوامی دہائی‘ کا آغاز ہو چکا ہےمیرا خیال ہے کہ صدیوں پہلے غلاموں کی تجارت کا آغاز کرنے والے پہلے ممالک، یعنی سپین اور پرتگال کا بھی یہی موقف ہوگا۔
اسی طرح امریکہ میں بھی غلامی کے دنوں کی تلافی کا مطالبہ کئی مرتبہ سر اٹھا چکا ہے اور چند سال پہلے کانگریس اس معاملے پر معافی بھی مانگ چکی ہے، لیکن امریکہ میں بھی مالی تلافی کے کسی فارمولے پر کبھی اتفاق نہیں ہو پایا ہے۔
اس حوالے سے سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزیاں ماضی بعید کی باتیں ہیں، اور آج کسی ایک ملک یا قوم کو بحیثیت مجموعی اس کا ذمہ دار قرار دینا عقل کی بات نہیں ہے۔
انسانی حقوق کے علمبردار ان دلائل کو نہیں مانتے۔ ان کا کہنا ہے کہ غلاموں کی تجارت کو ایک خاص انسانی معاملے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے کیونکہ غلاموں کی تجارت قدرت کے اس بنیادی قانون کی مکمل نفی کرتی ہے کہ ہر انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور کسی کو اسے غلام بنانے کا حق حاصل نہیں ہے۔
انسانی حقوق کے علمبردار وں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس جرم کی سزا اور تلافی کی کوئی حد نہیں ہونی چاہیے۔
لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں برطانوی حکومت پر دباؤ میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔
کچھ ہی عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے تحت ’افریقی النسل اقوام کی بین الاقوامی دہائی‘ کا آغاز ہو چکا ہے جو سنہ 2024 تک جاری رہے گی۔ مختلف تنظیموں نے اگلے دس برسوں کے لیے جن تقریبات اور سرگرمیوں کا منصوبہ بنایا ہے ان میں دورِ غلامی پر معافیاں اور مالی تلافی کے مطالبات سرفہرست ہیں۔‘‘