نیو یارک ۔ :اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین نے شام سے اردن کی طرف نقل مکانی کرنے والوں کے بارے میں ان کی بے بسی کی عکاس تصاویر شائع کی ہیں۔
ان مہاجرین میں سے بعض کمر اور کندھوں پر سامان بھری بوریاں اٹھا کر تنگ پہاڑی راستوں سے گذر رہے ہیں۔ جبکہ ہر طرف گردوغبار کے بادل فضا میں چھائے ہوئے ہیں۔
یو این ایچ سی آر کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ان مہاجرین میں ایسے بھی ہیں جو سیاسی پناہ کے لیے کوشاں ہیں اور بے گھر ہونے والے اہل شام بھی۔ اس رپورٹ کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ مہاجرین کی تعداد 50 ملین سے زیادہ ہو گئی ہے۔
ان میں زیادہ تر لوگ شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے پناہ گزین بننے والے افراد موجود ہیں۔ صرف پچھلے سال شامی خانہ جنگی کی وجہ سے ڈھائی ملین اہل شام کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ جبکہ ایک سال کے دوران ساڑھے چھ ملین لوگوں کو ملک کے اندر ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا۔
مہاجرین سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے ہائی کمشنر نے کہا ” اس نہ ختم ہونے والی جنگ کی وجہ سے ان مہاجرین پر ایک خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے۔”
داعش کے دہشتگردوں پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے بشار الاسد کے خلاف جو مہم چھیڑ رکھی ہے وہ بھی ایک وجہ ہے کہ شہریوں میں بے یقنی پیدا ہو گئی ہے اور نقل مکانی بڑے پیمانے پر جاری ہے۔