دولتِ اسلامیہ نے تصدیق کی ہے کہ اس نے طالبان کے ایک سابق ترجمان حافظ سعید خان کو اس خطے میں اپنا کمانڈر مقرر کر دیا ہے۔ حافظ سعید اس سے قبل طالبان سے منحرف ہو گئے تھے۔
حافظ سعید خان دس روز قبل ایک ویڈیو میں ظاہر ہوئے تھے۔ اب دولتِ اسلامیہ سے منسلک ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ سے نشر کیے جانے والے ایک آڈیو بیان میں کہا گیا
ہے کہ وہ دولتِ اسلامیہ کے نئے کمانڈر مقرر کر دیے گئے ہیں۔
دولتِ اسلامیہ افغانستان میں بھرتیاں کر رہی ہے
سعید خان کا تعلق اورکزئی ایجنسی ہے اور وہ تحریکِ طالبان پاکستان اورکزئی ایجنسی کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ 2013 میں حکیم اللہ محسود کے امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد وہ تحریکِ طالبان سے الگ ہو گئے تھے، اور انھوں نے اپنی الگ تنظیم قائم کر لی تھی۔
سعید خان کے ساتھ ویڈیو دو افغان طالبان کمانڈر بھی نظر آ رہے تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان دونوں میں شدت پسندوں کی حمایت حاصل کر رہے ہیں۔
اس ویڈیو پیغام میں دولتِ اسلامیہ کی روایت کے مطابق موت کی دھمکیاں شامل تھیں۔ اس میں سعید خان کو دس افراد کے ایک گروہ کے ساتھ دکھایا گیا ہے جنھوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کر رکھی ہے۔
دولتِ اسلامیہ نے دیکھتے ہی دیکھتے بےپناہ طاقت حاصل کر لی ہے اور دنیا کے کئی حصوں میں ان کے حمایتی پیدا ہوئے ہیں
اب دولتِ اسلامیہ کی طرف سے ابو محمد العدنی نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ انھیں واقعی دولتِ اسلامیہ نے افغانستان اور پاکستان کے لیے اپنا کمانڈر مقرر کیا ہے۔
العدنی نے اس ویڈیو پیغام میں سعودی شاہ عبداللہ کی موت کا ذکر کیا ہے تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ یہ پیغام نیا ہے۔
دولتِ اسلامیہ کیا ہے؟
انھوں نے کہا کہ سعید خان کو خراسان کا کمانڈر بنایا گیا ہے۔ خراسان افغانستان کا قدیم نام ہے، اور بعض مسلمانوں کے لیے اس میں تاریخی کشش موجود ہے۔
خود افغانستان میں ابھی تک صرف شمالی صوبے ہلمند میں دولتِ اسلامیہ کے سیاہ پرچم نظر آئے ہیں۔ وہاں طالبان سے منحرف ایک کمانڈر ملا عبدالرؤف نے کہا تھا کہ انھوں نے دولتِ اسلامیہ میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا ان کا واقعی دولتِ اسلامیہ سے کوئی رابطہ ہے یا نہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ برس میڈیا کی رپورٹوں میں آیا تھا کہ بنوں، کراچی، ملتان اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں دولتِ اسلامیہ کی حمایت میں وال چاکنگ کی گئی ہے، اور پشاور میں اس حوالے سے پیمفلٹ تقسیم کیے گئے ہیں۔
بعض اطلاعات کے مطابق لاہور کے بعض علاقوں میں بھی پوسٹر اور سٹکر دیکھے گئے تھے، تاہم پاکستان کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا تھا کہ دولتِ اسلامیہ نامی تنظیم کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے، اس لیے اس معاملے کو ہوا دینا نامناسب ہے۔
۔۔