امریکی صدر نے کہا کہ ان کا ملک پاکستان سے لے کر فرانس تک دہشت گردی کے تمام متاثرین کے ساتھ ہے
امریکی صدر براک اوباما نے ’سٹیٹ آف دی یون
ین‘ خطاب میں کہا ہے کہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے میں وقت لگے لگا لیکن ان کا ملک جس وسیع تر اتحاد کی قیادت کر رہا ہے وہ اس شدت پسند گروپ کو کمزور کر کے بالاخر شکست دے دے گا۔
منگل کی شب کانگریس کے دونوں ایوانوں کے اراکین سے بطور صدر اپنے چھٹے سالانہ خطاب میں براک اوباما نے کانگریس سے مطالبہ کیا کہ وہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف طاقت کے استعمال کی منظوری دے۔
اوباما نے کہا کہ عراق اور شام میں امریکی قیادت میں اتحاد دولتِ اسلامیہ کی پیش قدمی روک رہا ہے: ’مشرقِ وسطیٰ میں ایک اور زمینی جنگ میں گھسیٹے جانے کی بجائے ہم ایک وسیع تر اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں جس میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ ہم شام میں ایک روشن خیال حزبِ مخالف کے بھی حامی ہیں جو اس کوشش میں ہماری مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم ہر جگہ ان لوگوں کی مدد کر رہے ہیں جو پرتشدد انتہاپسندی کے نظریے کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں۔ اس کوشش میں وقت لگے گا اور اس پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی لیکن ہم کامیاب ہوں گے۔‘
’میں آج کانگریس سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ دنیا کو دولتِ اسلامیہ کے خلاف طاقت کے استعمال کی منظوری دینے کی قرارداد منظور کر کے دکھا دے کہ ہم اس مشن میں ساتھ کھڑے ہیں۔‘
دہشت گردی کے متاثرین کی بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ ان کا ملک پاکستان سے لے کر فرانس تک دہشت گردی کے تمام متاثرین کے ساتھ ہے: ’ہم پاکستان کے ایک سکول سے پیرس کی گلیوں تک دنیا کے ان تمام افراد کے ساتھ ہیں جنھیں دہشت گردوں نے نشانہ بنایا ہے۔‘
’مشرقِ وسطیٰ میں ایک اور زمینی جنگ میں گھسیٹے جانے کی بجائے ہم ایک وسیع تر اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں جس میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔۔۔ ہم ہر جگہ ان لوگوں کی مدد کر رہے ہیں جو پرتشدد انتہاپسندی کے نظریے کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں۔ اس کوشش میں وقت لگے گا اور اس پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی لیکن ہم کامیاب ہوں گے۔
براک اوباما
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ دہشت گردوں کا تعاقب کر کے ان کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گا اور وہ اس سلسلے میں کہیں بھی ان دہشت گردوں کے خلاف یکطرفہ طور پر بھی کارروائی کرے گا جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے براہِ راست ِِخطرہ بنیں گے۔
براک اوباما نے خلیج گوانتانامو کے حراستی مرکز کو بند کرنے کا عزم دہرایا۔ انھوں نے اپنے پہلے سٹیٹ آف یونین خطاب میں یہ قیدخانہ بند کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم تاحال اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا اور اب بھی وہاں 122 افراد قید ہیں۔
امریکی صدر نے کہا کہ ’یہ کام ختم کرنے کا وقت ہے اور میں اسے بند کرنے کے بارے میں اپنا عزم متزلزل نہیں ہونے دوں گا۔‘
ایران کا جوہری پروگرام
ایران کے جوہری پروگرام پر بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا ’ہمارے پاس ایک ایسا جامع معاہدہ کرنے کا موقع ہے جو جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران سے بچاتا ہے اور امریکہ اور اسرائیل سمیت اس کے اتحادیوں کو محفوظ بناتا ہے۔‘
اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس سلسلے میں مذاکرات کامیاب ہی ہوں گے اور ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھنے کے لیے تمام آپشن موجود ہیں۔ تاہم کانگریس کی جانب سے اس وقت عائد کی جانے والی نئی پابندیاں اس بات کو یقینی بنا دیں گی کہ بات چیت ناکام ہو جائے اور امریکہ اپنے اتحادیوں سے الگ ہو جائے۔
امریکی صدر
امریکی کانگریس کی جانب سے ایران پر نئی پابندیوں کے معاملے پر بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ اس وقت پابندیوں کی کوئی توجیہ نہیں اور وہ کسی بھی ایسے بل کو ویٹو کر دیں گے جو موجودہ مذاکراتی عمل کے لیے خطرہ بنے گا۔
اوباما نے یہ بھی کہا کہ ’اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس سلسلے میں مذاکرات کامیاب ہی ہوں گے اور ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھنے کے لیے تمام آپشن موجود ہیں۔ تاہم کانگریس کی جانب سے اس وقت عائد کی جانے والی نئی پابندیاں اس بات کو یقینی بنا دیں گی کہ بات چیت ناکام ہو جائے اور امریکہ اپنے اتحادیوں سے الگ ہو جائے۔‘
سائبر سکیورٹی
امریکی صدر نے کانگریس پر زور دیا کہ وہ سائبر حملوں سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کرے: اگر ہم نے کچھ نہ کیا تو ہم اپنی قوم اور معیشت کو کمزور کریں گے۔‘
شمالی کوریا سے حالیہ سائبر تنازع کے تناظر میں امریکی صدر نے اپنی تقریر میں کہا کہ کسی بھی ملک یا ہیکر کو امریکہ کے نیٹ ورک بند کرنے، تجارتی راز چرانے یا امریکی شہریوں خصوصاً بچوں کی نجی زندگی میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
براک اوباما نے خلیج گوانتانامو کے حراستی مرکز کو بند کرنے کا عزم بھی دہرایا۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم یقینی بنا رہے ہیں کہ ہماری حکومت سائبر خطرات سے نمٹنے کے لیے خفیہ معلومات کے تبادلے کا ایسا ہی نظام بنائے جیسا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا تھا اور آج رات میں کانگریس پر زور دیتا ہوں کہ وہ ہمیں درپیش سائبر خطرات، شناخت کی چوری اور بچوں کی معلومات کے تحفظ کے حوالے سے قانون سازی کرے۔‘
کیوبا
امریکی صدر نے کانگریس پر زور دیا کہ وہ کیوبا کا تجارتی مقاطعہ ختم کرنے کے لیے کام شروع کر دے۔ ان کا کہنا تھا کیوبا کے لیے امریکہ کی پالیسی میں حالیہ تبدیلی میں بداعتمادی کے ورثے کو ختم کرنے کی صلاحیت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سابقہ پالیسی پانچ دہائیوں میں کچھ نہ کر سکی اور اب وقت ہے کہ کچھ نیا طریقہ آزمایا جائے۔
’ہم کیوبا کے بارے میں اپنی اس پالیسی کو ختم کر رہے ہیں جس کی مدتِ استعمال بھی کب کی ختم ہو چکی۔ جب آپ جو 50 برس سے کرتے آ رہے ہیں کام نہ آئے تو کچھ نیا کرنے کا وقت ہوتا ہے۔‘