امریکی اور فرانسیسی فضائی حملے دولت اسلامیہ کو حقیقی نقصانات پہنچا رہے ہیں جبکہ اس کے پاس اس کا کوئی موثر جواب نہیں ہے
خود ساختہ دولت اسلامیہ کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ ان کے جنگجو درحقیقت عراق و شام میں امریکی فوجیوں کا زمینی جنگ میں خیر مقدم کریں گے۔
شام میں پیدا ہونے والے دولت اسلامیہ کے ترجمان نے اپنا نام شیخ ابو محمد العدنانی رکھ رکھا ہے۔ انھوں نے 42 منٹ کے ایک آڈیو پیغام میں امریکہ کے فضائی حملے اور دولت اسلامیہ کے خلاف بین الاقوامی محاذ
بنانے کے اقدام کا مذاق اڑایا ہے۔
امریکی صدر براک اوباما کو مخاطب کرتے ہوئے ترجمان نے کہا: ’اپنی اس مہم میں کیا آپ صرف اتنا ہی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا امریکہ اور ان کے سارے حلیف۔۔۔زمین پر اترنے کے قابل نہیں؟‘
مشرق وسطیٰ میں دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی سربراہی والے مہم کے متعلق مختلف حوالوں سے دو باتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں۔
امریکی اور فرانسیسی فضائی حملے دولت اسلامیہ کو حقیقی نقصانات پہنچا رہے ہیں جبکہ اس کے پاس اس کا کوئی موثر جواب نہیں ہے اور کئی وجوہات کے تحت یہ امریکی فوج کو زمینی جنگ میں شامل کرنا چاہتی ہے۔
لندن میں انٹرنیشنل سنٹر فار دا سٹڈی آف ریڈیکلائزیشن کے ڈائرکٹر ڈاکٹر پیٹر نیومین نے تبصرہ کیا کہ ’انھیں مغرب کے ساتھ جنگ کا مستقل درد ہے۔‘
برطانیہ سمیت متعدد ممالک دولت اسلامیہ کے خلاف برسرپیکار افواج کو اسلحے فراہم کرا رہے ہیں
انھوں نے کہا: ’(مغربی مغویوں کے) قتل کی ویڈیو ضرورت سے زیادہ ردعمل کے چارے کے طور پر تھی۔ جوں ہی زمین پر مغربی فوجی اتریں گے وہیں مغرب بمقابلہ اسلام والا پرانا قصہ شروع ہو جائے گا اور وہ یہ دعویٰ کر سکیں گے کہ وہ قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ وہ ہمیں وہاں کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
جون کے مہینے میں بجلی کی سی تیزی کے ساتھ شمالی اور مغربی عراق میں پیش رفت کرنے کے بعد دولت اسلامیہ نے شہر در شہر قبضہ کرتے ہوئے عراق کے دوسرے سب سے اہم شہر موصل اوراس کے اہم ترین ڈیم پر قبضہ کر لیا اور کرد دارالحکومت اربیل پر بھی قبضے کے خطرے منڈلانے لگے۔
لیکن اس کے بعد کرد فوج کی حمایت میں امریکی فضائی حملوں نے دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کی پیش قدمی کو کئی جگہوں پر روک دیا اور انھیں موصل ڈیم اور ديگر کئی شہروں سے نکال دیا۔
گذشتہ ہفتے فرانسیسی فوج فضائی حملوں میں شامل ہوگئی اور وہ متحدہ عرب امارت سے حملے کر رہی ہے۔ آسٹریلیا بھی سوپر ہارنٹ حملہ آور طیارے روانہ کر رہا ہے اور برطانیہ ابھی اس بات پر غور کر رہا ہے کہ آیا وہ جنگ میں شامل ہو یا نہیں۔
فرانس کے بعد اب آسٹریلیا نے بھی دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں شریک ہورہا ہے
برطانیہ سمیت متعدد ممالک دولت اسلامیہ کے خلاف برسر پیکار افواج کو اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔
لیکن دولت اسلامیہ کے ترجمان نے اپنی تقریر میں اس پر حقارت کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ کو متنبہ کیا ہے کہ اس نے عراقی فوج کو بھیجے جانے والے بہت سارے جدید امریکی ہتھیاروں پر قبضہ کر لیا ہے۔
پیغام میں کہا گیا ہے: ’اپنے ایجنٹ اور کتوں کو اسلحہ اور جنگی سازوسامان بھیجتے رہو۔۔۔ انھیں کثیر تعداد میں بھیجو کیونکہ یہ آخر میں مال غنیمت کے طور پر ہمارے ہاتھ آئیں گے۔ اپنی بکتر بند گاڑیوں، مشینوں، ہتھیاروں اور سازو سامان کو دیکھو۔ یہ ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ اللہ نے یہ ہمیں عطا کیا ہے۔ اور ہم اسی سے تم سے لڑتے ہیں۔‘
چونکہ کمزور عراقی فوج کو دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے خلاف لڑنے کے قابل نہیں سمجھا جا رہا اس لیے سنہ 2011 میں عراق سے واپسی کے بعد امریکی فوج پھر سے عراق میں داخل ہو سکتی ہے۔
برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا خیال ہے کہ دولت اسلامیہ کو بغیر زمینی جنگ کے ختم کرنا ناممکن ہے
صدر اوباما، ڈیوڈ کیمرون اور دوسرے مغربی ممالک کے رہنماؤں نے علی الاعلان کہہ رکھا ہے کہ ’زمین پر کوئی فوج نہیں اتاری جائے گی،‘ حالانکہ تقریباً ایک ہزار امریکی فوجی پہلے سے ہی عراق میں موجود ہیں۔
بہت سے فوجی اور سیاسی مبصرین بشمول سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا خیال ہے کہ دولت اسلامیہ کو بغیر زمینی جنگ کے ختم کرنا ناممکن ہے۔
دولت اسلامیہ کے ترجمان یہ کہنے میں پریقین نظر آئے کہ ’تمھیں قیمت ادا کرنی ہوگی جب تمہارے بیٹوں کو ہم سے جنگ کرنے کے لیے بھیجا جائے گا اور وہ تمہارے پاس معذور، کٹے ہاتھ پاؤں کے ساتھ، تابوتوں میں، یا ذہنی مریض کے طور پر پہنچیں گے۔‘
دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کو زمینی جنگ میں کئی فوائد نظر آ رہے ہیں جس کے نتیجے میں یہ جنگ، جو اس وقت زیادہ تر مسلمان بمقابلہ مسلمان جنگ ہے، وہ اس کی بجائے ’صلیبی جنگجوؤں‘ کے خلاف ’عالمی جہاد‘ میں تبدیل ہو جائے گی اور اس سے دولت اسلامیہ کی جنگجوؤں کی بھرتی میں دوچند اضافہ ہو جائے گا۔