نوئل ویلنٹزاس (بائیں) اور آسیہ صدیقی کو حال ہی میں نیویارک کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا۔
گزشتہ ماہ نیویارک کی ایک عدالت میں دو مقامی خواتین پر ’وسیع تباہی کا ہتھیار‘ استعمال کرنے کی سازش کرنے کے الزام میں فردِ جرم عائد کی گئی۔
دونوں کا دعوٰی تھا کہ وہ ’دولتِ اسلامیہ کی شہری‘ ہیں، حالانکہ وہ کبھی وہاں گئیں ہی نہیں۔ اور ان کے وہاں نہ جانے کی وجہ بقول ان کے یہ تھی کہ دونوں ہی
سن رسیدہ اور ایک شادی شدہ ہے۔
ازدواجی حیثیت اور اپنی عمروں کے بارے میں ان کی یہ تشویش کسی تعجب کا باعث نہیں کیونکہ آن لائن پر جس طرح کے تبصرے سامنے آئے ہیں ان میں بھی اس بات کو نمایاں کیا جاتا ہے کہ شام پہنچنے پر خواتین جھٹ پٹ شادی کی توقع رکھ سکتی ہیں۔
ایسی خواتین کے لیے کسی جنگجو سے شادی کا مطلب ایک بارعب شناخت اور وسیع تر برادری یعنی امّۃ سے تعلق کا پیدا ہونا ہے۔
’جعلی پسند‘
زیادہ تر تجزیوں سے ایسا ظاہر ہوتا کہ ان عورتوں نے مغربی لبرلزم کو مسترد کر دیا ہے، مگر درحقیقت اس تاثر سے یہ بات آشکارہ ہوتی ہے کہ معاشرہ کی اکثریت ان کی مشکلات کو سمجھ ہی نہیں سکی ہے۔
دراصل انہیں ایک جعلی اختیار پیش کیا جاتا ہے۔ اور یہ کہ یا تو وہ اپنے حقوق اور آزادی نسواں کی بات کریں، یا پھر ’روایت‘ اور ’ایمان‘ کو اختیار کریں۔
دونوں مقاصد کے ایک وقت میں حصول کے مطالبہ کو ان کی اپنی برادری اور وسیع معاشرہ غیر منطقی قرار دیتا ہے۔
دولت اسلامیہ اسی بات کا فائدہ اٹھاتی اور مغربی معاشرہ میں عورت کی حیثیت پر اعتراض کرتی ہے۔ مثلاً یہ کہ بدن کی تصاویر پر ہونے والے مباحث، گھر اور ملازمت کی دوہری ذمہ داریاں، جنسی تشدد، عریانیت، نسل پرستی اور اس طرح کہ دوسرے موضوعات کو دولت اسلامیہ خوب اچھالتی ہے۔
مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ دولت اسلامیہ حقوقِ نسواں کی علمبردار ہے۔ اس کے نزدیک عورتیں مردوں کے برابر نہیں ہیں، اور یہ کہ وہ مغربی حقوقِ نسواں کی تحریک کو بھی مسترد کرتی ہے۔
یونیورسٹی طالبہ اقصٰی محمود نے شام جاکر دولت اسلامیہ کے ایک جنگجو سے شادی رچالی ہے۔
کوِلیم فاؤنڈیشن نامی تھِنک ٹینک نے حال ہی میں دولت اسلامیہ کے منشور کا ترجمہ کیا ہے جس کے مطابق جنگ کے لیے عورتوں کو گھریلو ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کی اجازت ہے، بشرطیکہ: ’اگر دشمن نے اس کے ملک پر حملہ کر دیا ہو اور مردوں کی تعداد اتنی نہ ہو کہ وہ ملک کا دفاع کر سکیں، اور مفتی بھی اس سلسلے میں فتوٰی جاری کر دیں۔‘
دولت اسلامیہ کی عورتیں یہ بات جانتی ہیں کہ وہ وقت ابھی نہیں آیا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ دولت اسلامیہ کا پیغام ذاتی یا نجی اور عوامی سیاسی دونوں ہی ترجیحات لیے ہوتا ہے۔
اگر بغور جائزہ لیا جائے تو جہادی دلہنوں کے بیانات امید اور رومانیت آمیز سادگی لیے ہوتے ہیں۔
صحافی اینا ایریل نے، جنہوں نے اپنے پیشہ کو خفیہ رکھا تھا، ایک وقت میں انٹرنیٹ پر اس لیے شہرت حاصل کر لی تھی کہ وہ ایک مشہور یورپی جہادی جنگجو کی منگیتر تھیں۔
دولت اسلامیہ میں شادی کو دو افراد کے مابین محض ایک ازدواجی بندھن سے بڑھ کر سمجھا جاتا ہے جس میں ذاتی خواہشات کو ایک وسیع تر مقصد اور بہتر زندگی کے اعلٰی تصور سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
بنتِ نور نے، جو شام میں ایک برطانوی جنگجو کی بیوی ہیں، 2014 میں Ask.fm پر لکھا، ’عورتیں مردوں کی تعمیر کرتی ہیں اور مرد امّہ بناتے ہیں۔‘
خودکردہ پیش گوئی
ان کی ذاتی پسند کا مقصد، جس میں گھریلو کام کاج، بچے اور شادی وغیرہ شامل ہیں، ایک نئی مملکت بنانا ہے۔
ایک خبری ویب سائٹ Vocativ کے مطابق، دولت اسلامیہ کے 45 فی صد پروپیگنڈہ کا محور ایک وسیع خلافت کی تعمیر اور بقا ہے۔
سڑکیں اور دیگر شہری تعمیرات کے ساتھ وہ ٹریفک پولیس، فلاحی کاموں، عدالتی نظام، ہسپتالوں اور زرعی منصوبوں کے بارے میں بھی اپنے پیغام جاری کرتی رہتی ہے۔
چندہ ماہ قبل تین نوجوان برطانوی لڑکیاں دولت اسلامیہ میں شامل ہونے کے لیے ترکی کے راستے شام گئیں تھیں۔
یوں شام اور عراق جانے والی لڑکیوں کے سامنے ایک وسیع تر مقصد ہوتا ہے، یعنی وہ اس نئی مملکت کی بانی مائیں بننا چاہتی ہیں۔
اس کے مقابلے میں ان کے سامنے یورپ میں رہنے والے نوجوان مسلمان ہیں جنہیں مستقلاً ایک خطرہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے یا یہ کہ ان کے لیے یہاں نہ تو کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی کوئی مستقبل۔
یہ ایک لحاظ سے خودکردہ پیش گوئی ہے۔
دولت اسلامیہ کو چیلنج کرنے کے لیے ان کے مذہبی تصور کے مقابلے میں دلائل، پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اختیارات وسیع کرنے اور نئے قوانین متعارف کروانے سے کہیں بڑھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی ایسے بنیادی پروگرام ترتیب دیے جائیں جو نوجوان مسلمان عورتوں کے بارے میں تفتیش کرنے کی بجائے ان کی زندگیوں میں بہتری لائیں۔
حالیہ سیاسی ماحول میں نوجوان مسلمان کی بہت بڑی تعداد خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اگر انہوں نے کوئی سوال بھی پوچھ لیا تو یا تو ان کی نگرانی شروع ہوجائے گی یا پھر ان کے بارے میں یہ تصور قائم کر لیا جائے گا کہ وہ پہلے ہی سے شدت پسند ہیں۔ یہ زبان بندی انہیں انتہا پسندی کی طرف راغب کرتی ہے۔
اس کے بدلے ان کے اندیشوں اور امنگوں کو سمجھنے کی کوشش، اور اسلام سے متعلق بے بنیاد خوف، امتیاز اور دوسری مادی محرومیوں کا ازلہ کیے جانے کی ضرورت ہے۔
مسلم ویمن کونسل کے زیرِ اہتمام ہونے والی ڈاٹرز آف ایو (حوا کی بیٹیاں) کانفرنس اس سلسلے میں ایک اچھی کوشش ہے۔
ہمیں انہیں موقع دینا چاہیے کہ وہ نہ صرف دولت اسلامیہ بلکہ برطانیہ کے بارے میں بھی اہم اور بنیادی سوالات اٹھائیں۔