نئی دہلی :ہندستان میں پارسی فرقے کی حصولیابیاں ان کی تعداد کے تناسب میں کہیں زیادہ ہیں۔جتنا ہندستان نے ان کے لیے کیا ہے ، اس سے زیادہ انہوں نے ہندستان کے لیے کیا ہے ۔
اس تقریظ کے ساتھ آج یہاں اقلیتی امور کی مرکزی وزیر نجمہ ہپت اللہ نے ایورلاسٹنگ فلیم انٹرنیشنل پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارسیوں نے کبھی حکومت وقت سے کوئی مراعات نہیں مانگی اور قوم اور معاشرے کی بے لوث خدمت کے نئے معیار قائم کیے ۔وہ جس آتش کو اپنے ساتھ لے کر آئے تھے اس نے ملک و قوم کی تعمیر میں انہیں سرگرم عمل رکھا ۔یہ آتشِ جاوداں ہمیشہ روشن رہے گی اور آنے والے وقت میں ہمارے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوگی۔
محترمہ ہپت اللہ نے کہا کہ وہ اس تقریب میں وادا دستورجی خورشید دستور اور ہندستان کے تمام اعلیٰ مذہبی پیشواؤں اور ڈاکٹر سائرس پوناوالا، چئیرمین سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کے علاوہ ان تمام حاضرین کا ، جو ایران، وسط ایشیا، پاکستان، سری لنکا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، یونائٹیڈ کنگڈم، ریاستہائے متحدہ امریکا، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور دنیا کے تمام حصوں سے آئے ہوئے تمام حاضرین کا پرجوش خیر مقدم کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ پارسی فر قہ جس نے زندگی کے تمام شعبوں میں کمال حاصل کیا ہے مستقل طور پر سماج کی بہبود کے کاموں میں سرگرم ہے ۔اعلیٰ درجے کے تاجروں کی حیثیت سے انہوں نے اس ملک میں دولت پیدا کی ہے ، لوگوں کو روزگار فراہم کیا اور معیشت کو فروغ دینے میں مدد کی ۔”اگر دولت پیدا کرنے کا کوئی مقصد ہے ، تو ہمیں وہ مقصد پارسیوں سے سیکھنا چاہئے ”۔اسی کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پارسیوں کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ” کثرت اور سب کو قبول کرنے کی خوبیاں” ہندوستانی معاشرے کا فطری حصہ ہیں۔
” عظیم پارسی فلاح کاروں نے ہمیں دکھادیا ہے کہ دولت لوگوں کی ترقی کے لیے ہے ۔انہوں نے اس کا ثبوت دیتے ہوئے سائنس، میڈیسن اور ثقافت کے میدانوں میں اعلیٰ درجے کے ادارے قائم کئے ہیں جن میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، بنگلور، ٹاٹا میموریل ہاسپٹل، نیشنل سنٹر فار پرفارمنگ آرٹس، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامنٹل ریسرچ، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز، ممبئی شامل ہیں۔انہوں نے لوگوں کے دنیا کو دیکھنے کے نقطئہ نظر میں تبدیلی لاکر ان کی زندگیوں پر اثر ڈالا ہے ”۔
محترمہ نے کہا کہ ”پارسی فرقے سے میری ذاتی وابستگی ہے ۔ مجھے کئی پارسی دوستوں کی رفاقت حاصل رہی ہے اور میں نے پچھلی کئی دہائیوں میں ہندستان کو پارسیوں نے کیا کچھ دیا اس کا مشاہدہ کیا ہے ۔ ہر انسان کے دل و دماغ میں ہونے والی نور اور تاریکی کی جنگ کا ادراک سب سے پہلے کانسے کے عہد میں پیغامبر آشو زرتشت کو ہوا تھا۔ عیسیٰ مسیح نے اپنے ماننے والوں کوجہاں اپنے پڑوسیوں سے محبت کرنے کی تلقین کی، وہیں زرتشت نے اپنے پیروکاروں کو دوسروں کو خوشی دے کر خوشی حاصل کرنے کی ہدایت کی۔
وزیر موسوف نے کہا کہ اس موقع پر وہ تمام عالم انسانیت سے یہ کہنا چاہیں گی کہ وہ دیکھیں کہ کس طرح ہوُمَت،ہوُختَ، ہوُرَشت یعنی ‘اچھی باتیں سوچو، اچھے الفاظ بولو اور اچھے کام کرو’ کے اصولوں نے اس چھوٹی سی کمیونٹی کو، دنیا میں جن کی تعداد ایک لاکھ سے بھی کم ہے ، د نیا کے سات بلین لوگوں میں امتیازی حیثیت عطا کی ہے ۔ ہندستان کو صنعتی میدان میں ایک آزاد اور ترقی یافتہ قوم کی حیثیت سے دیکھنے کے لئے جمشید جی ٹاٹا کی محنت، ہندستان کی آزادی کے لیے بھیکاجی کاما کی بے لوث قربانی، ہندوستان کو ایک ایٹمی ملک بنانے کا ہومی بھابھا کا عزم، فیلڈ مارشل سیم مانک شا کی جنگی منصوبہ بندی، ایڈمرل جال خورشیدجی اور ایر مارشل مینو انجینیئر کے کارنامے ، یہ سب ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔
انہوںنے رتن ٹاٹاکو بھی یاد کیا اور کہا کہ انہوں نے ہندستانی صنعت کو دنیا میں ایک اعلیٰ مقام دلایا ہے ، اور گودریج اور واڈیا گھرانوں کی نسلوں نے جدید ہندوستان کی تعمیر میں مدد کی ہے ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پارسیوں نے ہندوستان کوجدیدیت سے روشناس کرایا۔”بدقسمتی سے ، آزادی کے بعد سے پارسیوں کی تعداد مسلسل گھٹ رہی ہے ۔ یہ میرے لیے اور ہماری سرکار کے لیے بڑی تشویشناک بات ہے ۔ہندستان میں زرتشتی پارسیوں کی آبادی میں گراوٹ کو روکنے کے لیے میری وزارت نے ‘جیو پارسی’ نام کی اسکیم کا آغاز کیا ہے ۔ اس پروگرام کا مقصد سائنسی پروٹوکول اور structured interventions کے ذریعے ہندوستان میں پارسیوں کی آبادی میں ٹھہراؤ لانا اور اس میں اضافہ کرنا ہے ۔مجھے آپ کو یہ بتاتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ اب تک اس کے ہمت افزا نتائج برآمد ہورہے ہیں اور آنے والے دنوں میں ہمیں مزید کامیابی حاصل کرنے کی امید ہے ”۔