رواں برس اردو ادب کے دوعظیم ادیبوں کے جنم کا 100واں سال ہے۔1915سے 2015تک کے سفر میں دونوں کو زندگی دستیاب ہوئی،ایک کلی ’’اترپردیش‘‘میں کھلی،توایک پھول’’پنجاب‘‘میں مہکا۔دونوں کی خوشبو سے اردوافسانے پر بہار اتری اوراردو زبان کو اپنی تخلیقات سے مالامال کردیا۔
اردوادب کی یہ دونوں عظیم شخصیات ’’عصمت چغتائی‘‘اور’’راجندرسنگھ بیدی‘‘ہیں۔دونوں نے جم کرلکھااورجانے کے بعد بھی اپنے ہونے کاجواز چھوڑگئے۔اردوافسانے میں جب تک تخلیقی عمل جاری رہے گا،ان کاتذکرہ ناگزیرہے۔عصمت نے زندگی کو سینہ سپر ہوکرجھیلااوربیدی کی آنکھوں سے زندگی کی تلخیاں متعدد بار بہہ نکلیں۔
یہ دونوں ہی اپنے فن میں یکتااوردھن کے پکے تھے،جس خیال کی انگلی تھام کر چلے،پیچھے مڑکرنہیں دیکھا۔کتنے ہی ہاتھ دامن پرپڑے،لیکن قلم کے یہ سپاہی اپنے خیال کے محاذ پرڈٹے رہے۔سماج ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ڈراتارہا،یہ نہ ڈرنے والے تھے ،نہ ٹوٹنے والے،اسی لیے ان کا فن اورحوصلہ باآواز بلند رہا۔،قدم ان دونوں نے اٹھائے،مگر سفراردو افسانے کاطے ہوا،اس سے بڑی سعادت کسی ہنرمند کے لیے اورکیاہوسکتی ہے۔ان دونوں ہستیوں کے جنم دن کو 100برس مکمل ہورہے ہیں،مگریہ تو اُس ہزاریے کے سوبرس ہیں،جس میں ان کی مقبولیت کو مزید پروا ز ملے گی۔
اردوادب کی دونوں شخصیات کے متعلق میں یہاں کچھ بنیادی معلومات قلم بندکروں گا،بالخصوص اردوادب سے جڑی نئی نسل کے لیے،تاکہ وہ جان سکیں،اس ادب کو پروان چڑھانے والے کیسے ندرتِ خیال لوگ تھے اور جمالیاتی تخلیق کاربھی،جنہوں نے ایک ایسے سماج میں شعور کاعلم بلند کیا،جہاں فرسودہ روایات تہذیب وتمدن کے نام پر رشتوں سے چمٹی ہوئی تھیں۔سیاسی حالات بھی خراب تھے،انسان ایک دوسرے کے خون کاپیاساتھا،زمین کے ساتھ ساتھ دلوں میں بھی تقسیم کی لہر رواں تھی،جس نے آخرکاراس سماج کودوٹکڑے کرکے دم لیا،ایسی فضا میں درد کی شرح لکھنے والے یہی تخلیق کارتھے،جن کی وجہ سے آ ج کاسماج بہترزندگی بسرکررہاہے۔ان کی تخلیقات صرف کہانیوں کامجموعہ اورکرداروں کااجتماع نہیں،بلکہ زندگی کانصاب تھی،وہ بھی ایسی زندگی ،جس میں زمینی حقائق صرف تلخ نہیں ،بے رحم بھی تھے،یقین نہیںآتا،توان دونوں تخلیق کاروں کی کہانیاں پڑھ کر دیکھ لیجیے۔
عصمت چغتائی کی تاریخ پیدائش کابرس1915اورمہینہ اگست ہے۔انہوں نے ناول نگاری اورافسانہ نویسی میں نام کمایا۔ڈرامے،خاکے،رپورتاژ،مضامین لکھے اورفلموں کے لیے اسکرپٹ نویسی بھی کی۔بدایوں،بھوپال،آگرہ،لکھنو،بریلی،جودھ پور،علی گڑھ اوربمبئی میں زندگی کے مختلف ادوار گزرے۔آبائی سلسلہ کئی پشتوں پیچھے جاکر ’’چنگیزخاں‘‘سے ملتاہے۔ان کے والدمرزاقسیم بیگ چغتائی پیشے سے جج تھے۔ان کے ایک بھائی’’عظیم بیگ چغتائی‘‘نے بھی قلم کارکی حیثیت سے شہرت پائی۔1942میں عصمت کی شاہد لطیف سے شادی ہوئی ،جس سے دوبیٹیاں پیداہوئیں۔انہوں نے ابتدائی طورپر تدریس کے شعبے سے خود کووابستہ رکھا،بعد میں مکمل طورپر تخلیق نگاری سے ناطہ جوڑ لیا۔1943سے 1978تک تقریباً 14 فلموں کے لیے اسکرپٹ اورمکالمہ نویسی کے شعبے میں خودکوآزمایا،جبکہ 1941میں ناول’’ضدی‘‘لکھ کر ادب سے اپنے مراسم استوارکرچکی تھیں۔
عصمت چغتائی نے جوناول لکھے،ان میں ضدی، ٹیڑھی لکیر،معصومہ،سودائی،عجیب آدمی،جنگلی کبوترشامل ہیں،جبکہ کاغذی پیرہن کے نام سے اپنی خودنوشت لکھی۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں کلیاں،ایک بات،چوٹیں،دوہاتھ،چھوئی موئی،بدن کی خوشبواورآدھی عورت آدھا خواب ہیں،ان مجموعوں کے کل افسانوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔1942میں ان کاایک افسانہ ’’لحاف‘‘لاہور سے شایع ہونے والی ادبی رسالے’’ادب لطیف‘‘میں شایع ہوا،جس پر ان کوفحش نگاری کاالزام سہناپڑااوران پر مقدمہ بھی دائر ہوا۔ان کے لکھے ہوئے ڈراموں کے مجموعے کانام ’’شیطان ‘‘ہے۔انہوں نے کئی معروف ادبی شخصیات کے خاکے لکھے،جن میں بشمول ’’عظیم بیگ چغتائی‘‘ اسرارالحق مجاز،سعادت حسن منٹو،خواجہ احمد عباس،کرشن چندر،سجادظہیر،پطرس بخاری،میراجی،جاں نثار اختر اوردیگر شخصیات تھیں۔
عصمت چغتائی نے اپنے سماج میں عورت کے اخلاقی اورجنسی استحصال پر پرزوراحتجاج کیا اورمردپرست معاشرے میں اس کے حق کے لیے زوردار آواز بلند کی،جس کے نتیجے میں بدنامی بھی کمائی،لیکن انتہائی بے جگری اوردلیری سے حالات کامقابلہ کیا،اپنی کہانیوں سے سچ لکھنے پرقائم ودائم رہیں۔برہنہ سچ سے کڑوے سچ تک ،ہرطرح کاسچ لکھامارا،جس کی تمازت آج بھی معاشرے میں محسوس کی جاسکتی ہے۔بھارت میں معروف اداکارنصیرالدین شاہ نے ان کے کہانیوں کوتھیٹر کے لیے پیش کیا،جبکہ پاکستان سے تحریک نسواں اورکتھک کی رقاصہ شیماکرمانی نے ان کی کہانیوں کو تھیٹر کے لیے منتخب کیا۔اردو افسانے کی تاریخ میں ایک جی دار اوربڑی افسانہ نگارکے طورپر ان کانام روشن رہے گا۔
راجندرسنگھ بیدی کی تاریخ پیدائش کامہینہ ستمبراورسال1915ہے۔ان کی شہرت کابنیادی حوالہ افسانہ نگاری ہے،اس کے علاوہ ڈرامے،انشائیے اورفلموں کے اسکرپٹ لکھے۔سیالکوٹ،لاہور،شملہ،جموں کشمیر،بمبئی میں زندگی کے مختلف ادوارگزارے۔والد کانام’’ہیراسنگھ بیدی‘‘تھا۔1934میں لاہور کے ایک پوسٹ آفس میں ملازم ہوئے اوریہی برس ان کی شادی کابھی تھا۔1943میں لاہور میں آل انڈیاریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔1946میں ایک اشاعتی ادارہ ’’سنگم پبلشرز‘‘قائم کیااوراسی برس فلم نگاری کی ابتدابھی کی۔1948میں جموں ریڈیواسٹیشن کے ڈائریکٹر مقررہوئے۔1949سے 1978تک یہ فلم نگری سے جڑے رہے،فلموں کی کہانیاں اورمکالمے لکھے،کئی فلموں کی ہدایت کاری کی اورفلم ساز کی حیثیت سے بھی کام کیا۔بمل رائے کی فلم’’دیوداس‘‘اورسہراب مودی کی فلم’’غالب‘‘کواپنے زوربیاں سے یادگاربنادیا۔ان کے کریڈٹ پر دیگر فلموں میں ایک چادرمیلی سی،نواب صاحب،دستک،میرے ہمدم میرے دوست،بہاروں کے سپنے،انوپما،میرے صنم،رنگولی، آس کاپنچھی،انورادھا،مدومتی،بمبئی کابابو،مسافر،بسنت بہار،ملاپ،داغ اوردیگر فلمیں شامل ہیں۔
راجندرسنگھ بیدی کے افسانوی مجموعوں میں دانہ ودوام،گرہن،کوکھ جلی،اپنے دکھ مجھے دے دو،ہاتھ ہمارے قلم ہوئے اورمہمان ہیں،ان میں شامل کہانیوں کی تعداد سوکے لگ بھگ ہے۔ان کے ڈراموں کے مجموعوں میں’’بے جان چیزیں ‘‘اور’’سات کھیل‘‘شامل ہیں۔ان کامشہورزمانہ ناول’’اک چادرمیلی سی‘‘ہے،جس پر انڈیااورپاکستان دونوں ممالک میں فلمی بنیں۔انہوں نے اپنی خودنوشت’’آئینے کے سامنے‘‘کے عنوان سے قلم بندکی۔ان کی شخصیت اورفن پرانڈیاسے ،اوپندرناتھ اشک،گوپی چند نارنگ،وارث علوی ،مشیرالحسن اوراُماچکروتی نے کام کیا،جبکہ پاکستان سے کام کرنے والوں میں ابوالخیرکشفی،خواجہ احمدعباس،ڈاکٹر سلیم اختر،فتح محمد ملک شامل ہیں۔بہت سارے دوسرے ادیبوں نے ان پر خاکے لکھے،ان میں کنہیالال کپور،پرکاش پنڈت،راجامہدی علی خاں،ظ انصاری اوردیگر شامل ہیں۔
راجندرسنگھ بیدی کی شخصیت باغ وبہار تھی،انہوں نے حالات کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا۔پوسٹ آفس کے کلرک سے ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر ہونے تک ،افسانہ لکھنے سے فلم بنانے تک اپنی ذات کے نہاں خانوں کی تلاش میں سرگرداں رہے۔تقسیم کے بعد لاہور سے ہجرت کرناپڑی،مگر یہ لاہو رکواپنے اندر سے نکال نہیں سکے۔پاکستان سے جب ایک ترقی پسند ادیب احمد سلیم ان سے ملنے گئے،یہ ان کی زندگی کے آخری برسوں کی بات ہے توانہوں نے اس مکالمے کو’’بیدی،بارش اورزندگی کی شام‘‘کاعنوان دیا۔یہ دل کو ہلادینے والی گفتگو ہے،جس سے اندازہ ہوتاہے،بیدی کولاہور کی گلیاں پکارتی تھیں،وہ ان شاہراؤں کویادکرکے آبدیدہ ہوجاتے،لاہور سے کوئی ملنے والاآجائے یا تذکرے میں لاہور،آنسوان کی پلکوں پرزیادہ دیر رک نہ پاتے۔یہی نرمی،کسک،بے قراری اوراضطراب بیدی کے افسانوں میں لپٹا ہواہے۔
راجندرسنگھ بیدی کی کہانیوں کے کردار عام لوگ ہوتے ہیں،جن کے ہاں سچائی اورسادگی زندگی کادوسرانام ہے۔ان کی تخلیقات میں فکری بالیدگی توہے ہی،مگر ایک فکری محتاط پسندی بھی موجود ہے،مگران سب پرا یک جذبہ حاوی ہے،وہ ہے یادوں کااحساس،جس کانہ کوئی بدل ہوا،نہ کوئی تلافی،وہ لاہور شہر کی یادیں اپنے افسانوں میں دفن کرتے رہے،مگر وہ ایک کے بعد دوسری کہانی ختم ہونے پر پھرسے یادیں مدمقابل آن کھڑی ہوتیں،ان یادوں کامجموعہ ہی بیدی کی ذات تھی،جب ہی توراوی ان کی آنکھوں سے بہہ جانے کوہروقت تیاررہتاتھا۔یہ ہمارے بیدی تھے۔
رواں برس عصمت اوربیدی کے جنم دن کاسال ہے۔انجمن ترقی پسند مصنفین نے کراچی میں ان دونوں کوخراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ’’راجندرسنگھ بیدی اورعصمت چغتائی صدی کانفرنس‘‘منعقدکی،جس میں مظہرجمیل،سعادت سعید،احمدسلیم،رشید مصباح،قاضی عابد،ڈاکٹرضیاالحسن، زاہدہ حنا،منیربادینی،شاہدکمال،صبا اکرام،پروفیسر نورمحمد شیخ،ڈاکٹر جمال نقوی،پروفیسر نوشابہ صدیقی،زیب النسازیبی اوردیگر نے اپنے مقالے پڑھے اوران دونوں کی شخصیات کے فن وشخصیت پر روشنی ڈالی۔
شیلف پر رکھی ہوئی ان دونوں کی کتابیں پھر سے کھولنے کودل چاہا،یہی نشانی ہے،زندہ ادب اورزندہ وجاوید ادیبوں کی۔ان دونوں کی یاد میں لاہور اوربمبئی دونوں اداس ہیں۔