ایران کی ایک عدالت نے ملک کی تاریخ کے ایک انوکھے مقدمہ کی سماعت شروع کی ہے جس میں ایک خاتون پر الزام ہے کہ اس نے دھوکہ دہی کے ذریعے دو سال میں 10 مختلف مردوں سے شادیاں رچائیں لیکن نکاح کے فوری بعد طلاق لے کر واپس چلی جاتی تھی۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق معاملے کی حساسیت کی وجہ سے خاتون کی شناخت نہیں کی گئی ہے۔ ایرانی پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا ہے کہ نوسربازی کے کیس کا سامنا کرنے والی دوشیزہ کی عمر 20 سال ہے۔ وہ متمول گھرانوں کے نوجوانوں کو شادی کا جھانسہ دے کر اپنے چنگل میں پھنساتی اور شادی کے فوری بعد شوہرکے ساتھ رہنے سے انکار کر دیتی۔ اس صورت میں شوہر کو اسے نصف مہر ادا کرنا پڑتا اور وہ رقم لے کر دوسرے ’شکار‘ کی طرف نکل جاتی۔
خیال رہے کہ ایران میں سنہ 1979ء کے بعد بنائے گئے اسلامی قوانین کی رو
سے طلاق میاں بیوی کے درمیان جنسی تعلقات کے قیام کےبعد دی جائے تو شوہر کومطلقہ کا پورا مہر ادا کرنا ہوتا ہے اور خلوت صحیحہ کے بغیر طلاق کی صورت میں صرف نصف مہر ہے۔
نوسرباز دوشیزہ نے جج کے روبرو بیان دیتے ہوئے کہا کہ “میں کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ عدالت مجھ سے کیوں سوال و جواب کررہی ہے۔” اس نے بتایا کہ وہ مختلف مردوں سے شادی کے عوض میں سونے کے 100 سکے یا 30 ہزار امریکی ڈالرکے برابر حق مہر وصول کرتی رہی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی حکام کی اس خاتون کے کیس پر توجہ اس وقت گئی جب انہوں نے دیکھا کہ ایک ہی خاتون کے اتنے کم عرصے میں شادی اور طلاق کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے اس کی طلاق کے تمام کاغذات جمع کیے اور عدالت کے حوالے کردیے۔ عدالت نے خاتون کے تمام سابقہ شوہروں کو طلب کر کے ان کے بیانات بھی ریکارڈ کرائے ہیں۔ ان سب کے بیانات بھی ایک ہی جیسے ہیں۔
اگرچہ ایران میں طلاق کی شرح بہت زیادہ ہے اور بڑے شہروں میں تین میں سے ایک شادی طلاق پر منتج ہوتی ہے لیکن طلاق کا مذکورہ واقعہ اپنی نوعیت کا منفرد کیس ہے اور اس کیس کی سزا کے تعین میں بھی عدالت کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔