تہران۔ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کی شامی بحران کے حل کے لیے اس ملک سے ”دہشت گرد گروپوں” کو بے دخل کرنا ہوگا۔
انھوں نے اتوار کو تہران میں شام کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی ایلچی لخضرالابراہیمی سے ملاقات میں کہا کہ ”ایران کو یقین ہے انسانی امداد کی مسلسل فراہمی ،دہشت گرد گروپ کی آمد کو روک کر اور انھیں شام سے بے دخل کر کے اور کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے ذریعے اس ملک میں پائیدار قیام امن کی جانب اہم قدم رکھا جاسکتا ہے”۔
واضح رہے کہ شامی حکومت صدر بشارالاسد کو اقتدار سے نکال باہر کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز سے برسرپیکار باغی جنگجوؤں کو غیرملکی دہشت گرد قرار دیتی چلی آرہی ہے اور اس کا ان کے بارے میں کہنا ہے کہ وہ دوسرے ممالک سے ہدایات لے رہے ہیں۔
حسن روحانی کا موقف تھا کہ شامی بحران کے حل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ علاقائی اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کے درمیان عدم اتفاق ہے۔ایران کی خبررساں ایجنسی ایسنا کی رپورٹ کے مطابق صدرروحانی نے کہا کہ ”پہلا مسئلہ شامی حزب اختلاف کی صفوں میں اختلافات اور ان میں دہشت گردوں کی موجودگی ہے۔اس کے بعد شام کے ہمسایہ ممالک اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان اتفاق رائے کا نہ ہونا بحران کے حل کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں”۔
ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ ان کا ملک شام میں استحکام کا موجب بننے والی کسی بھی تحریک میں مثبت کردار ادا کرے گا۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ اس کو جنیوا دوم کانفرنس یا کوئی اور نام دے دیں۔
الخضر الابراہیمی جنیوا دوم کانفرنس کے انعقاد کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے مشرق وسطیٰ کے دورے پرہیں۔انھوں نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران کی مجوزہ کانفرنس میں شرکت فطری اور ضروری ہے۔تاہم انھوں نے واضح کیا کہ ابھی تک اس مجوزہ کانفرنس میں شرکت کے لیے دعوت نامے نہیں بھیجے گئے۔
جنیوا میں نومبر کے آخر میں منعقد ہونے والی مجوزہ کانفرنس سے کسی مثبت نتیجے کے برآمد ہونے کے امکانات کم ہیں کیونکہ شامی حزب اختلاف نے ابھی تک اس میں شرکت کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے اور خود صدر بشارالاسد کا کہنا ہے کہ کانفرنس کے انعقاد کے لیے ابھی عوامل پورے نہیں ہوئے ہیں۔