واشنگٹن: امریکی صدر براک اوباما نے ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان برنارڈینو میں فائرنگ کے حالیہ واقعے کو دہشت گردی کی واردات قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو امریکا اور اسلام کی جنگ کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس کے اوول آفس سے براہ راست خطاب میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ آزادی خوف سے کہیں زیادہ طاقتور ہے، کیلی فورنیا واقعے کے بعد امریکا کے لیے دہشت گردی کے خطرات بڑھ گئے ہیں، لیکن امریکا اس بڑھتے ہوئے خطرے پر قابو پا لے گا۔
خیال رہے کہ جنوری 2009 میں صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ تیسرا موقع تھا جب براک وباما نے اوول آفس سے قوم سے خطاب کیا۔
اوول آفس سے امریکی صدر کا خطاب انتہائی اہم مواقع پر ہی ہوتا ہے۔
براک اوباما کا کہنا تھا کہ امریکی عوام کو اس جنگ کو اسلام اور امریکا کے درمیان جنگ نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ ہی ایک دوسرے کے خلاف ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم دہشت گردی کو شکست دینا چاہتے ہیں تو ہمیں مسلم کمیونیٹیز کو اپنے مضبوط ترین اتحادیوں کے طور پر ساتھ رکھنا ہوگا نہ کہ ہم انھیں شک اور نفرت کا شکار بنا کر دور دھکیل دیں۔
براک اوباما نے کہا کہ اب تک اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ کیلی فورنیا کے حملہ آور کسی غیر ملکی شدت پسند تنظیم کے اشارے پر کام کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سان برنارڈینو میں واقع معذوروں کے سینٹر میں فائرنگ کے واقعے میں 14 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
پولیس نے واقعے میں ملوث دو مشتبہ افراد 28 سالہ رضوان فاروق اور ان کی 27 سالہ اہلیہ تاشفین ملک کو کئی گھنٹوں کے آپریشن کے بعد ہلاک کردیا تھا۔
بعد ازاں یہ بات سامنے آئی کہ رضوان فاروق امریکی شہری تھے جبکہ تاشفین ملک ’کے۔ ون‘ ویزے پر امریکا آئیں ،جنھیں ویزا پاکستان سے جاری کیا گیا۔
ایف بی آئی کی واقعے کے حوالے سے تحقیقات میں یہ بھی واضح ہوا کہ دونوں میاں بیوی شدت پسندی کی جانب مائل تھے اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے شدت پسندوں سے رابطے بھی تھے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ دولتِ اسلامیہ (داعش) اسلام کی ترجمان نہیں اور امریکا اس شدت پسند تنظیم سے لڑنے کے لیے اپنی ہر ممکن طاقت استعمال کرے گا، لیکن ہمیں داعش کے خاتمے کے لیے خود کو شام اور عراق میں زمینی جنگ میں نہیں جھونکنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں : امریکا فائرنگ:’حملہ آور کا دہشت گردوں سے مبینہ تعلق‘
امریکی صدر نے کہا کہ امریکا میں انتہا پسندی کی جانب مائل ہونے والے افراد کے لیے اسلحے کے حصول کو مشکل بنانے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے امریکا میں داخل ہونے کے لیے ویزا پروگرام پر نظر ثانی کی ہدایت بھی کردی ہے۔