بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے ایک گھر میں سڑک پر رہنے والے بچوں کا ایک گروپ ایک غیرمعمولی ادارتی اجلاس میں مصروف ہے۔
یہ اجلاس ان کے سہ ماہی اخبار ’بالک نامہ‘ یعنی ’بچوں کی آواز‘ نکالنے کے لیے ہو رہا ہے۔
وہ تمام ایک جذبے سےبھرپور ہیں کیونکہ یہ اخبار ان جیسے سڑکوں پر زندگی گزارنے والے دیگر بچوں کے لیے آواز بلند کرتا ہے۔
یہ اخبار بڑے فخر سے دعویٰ کرتا ہے کہ ’یہ دنیا کا منفرد اخبار ہے جس کو سڑک چھاپ بچے سڑک چھاپ بچوں کے لیے نکالتے ہیں۔‘
18 سالہ چاندنی اخبار کی مدیرہ ہیں اور اخبار کے اگلے ایڈیشن میں شامل کیے جانے والے مواد پر جاری پرجوش بحث میں شامل ہیں۔
چاندنی کے آنے کے ایک سال کے اندر اس اخبار کی فروخت چار ہزار سے بڑھ کر پانچ ہزار تک ہو چکی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق بھارت میں ایک کروڑ سے زیادہ بچے سڑکوں پر رہتے ہیں اور جن سے زبردستی کام کروایا جاتا ہے
اخبار کے رپورٹر یا تو سٹریٹ چلڈرن ہیں یا پھر دہلی اور آس پاس کے علاقوں میں کام کرنے والی چائلڈ لیبر۔ سٹریٹ چلڈرن کی بحالی کے لیے کام کرنے والی این جی او چیتنا نے ان بچوں کی سرپرستی کا ذمہ لیا ہوا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق بھارت میں ایک کروڑ سے زیادہ بچے سڑکوں پر رہتے ہیں اور جن سے زبردستی کام کروایا جاتا ہے۔
چاندنی زندگی بھر غربت کی چکی میں پستی رہی ہیں۔ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے وہ اپنے والد کے ساتھ سڑک پر تماشہ کرنے سے لے کر کوڑرا چننے تک کے کام کر چکی ہیں۔
این جی او کے پروگرام میں شامل ہونے کے بعد چاندنی میں سکول جانے کا شوق پیدا ہوا۔
سکول جانے کے ساتھ ساتھ این جی او کی طرف سے انھیں کچھ جیب خرچ بھی ملتا تھا تاکہ وہ دوباہ کوڑا چننے کا کام نہ کرے۔ اسی این جی او نے ان کی بطور رپورٹر بھی تربیت کی۔
چاندنی جونیئر کو اخبار کی اگلی مدیر کے طور پر بھی نامزد کر دیا گیا ہے
چاندنی کہتی ہیں کہ ’مجھے اس اخبار کی ادارت کرنے پر فخر ہے کیونکہ یہ پورے بھارت میں اپنی قسم کا ایک ہی اخبار ہے۔ یہ اخبار ہماری طرح کے ان بچوں کی آواز ہے جن سے ان کا بچپن چھین لیاگیا، جو بھوکے رہتے ہیں، بھیک مانگتے ہیں، زیادتی کا شکار ہیں اور زبردستی کام کرنے پر مجبور ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کام سے نہ صرف ہمارا ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے بلکہ ہمیں زندگی کا ایک مقصد بھی ملتاہے۔ ہم یہیں سے ایک بہتر انسان بن سکتے ہیں۔‘
اخبار کے زیادہ تر رپورٹر دہلی میں موجود اخبار کے آفس میں اپنے ساتھیوں کو ٹیلی فون پر ہی زبانی کہانیاں سناتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ای میل اور فیکس کا انتظام نہیں ہے
چاندنی ہر ماہ دو ادارتی اجلاس کرتی ہیں تاکہ اخبار کے مواد پر مستقل نظر رکھی جاسکے۔
اخبار کی قیمت دو روپے ہے جس کی طباعت اور اشاعت کا ذمہ چیتنا نے لیا ہوا ہے لیکن اخبار کو اپنا خرچہ پورا کرنے کے لیے اشتہارات کی تلاش ہے جبکہ ابھی تک اسے حکومت کی جانب سے کوئی مالی امداد نہیں ملی ہے۔
19سالہ شنو نے پانچویں جماعت میں ہی سکول چھوڑ دیا تھا۔
سٹریٹ چلڈرن کی بحالی کے لیے کام کرنے والی این جی او چیتنا نے ان بچوں کی سرپرستی کا ذمہ لیا ہوا ہے
ان کی زندگی اب تک اپنے نشے کے عادی باپ کے ساتھ کام کرتے ہوئے گزری ہے لیکن آج وہ سماجی خدمت کے شعبے میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور ایک سماجی کارکن بننا چاہتی ہیں۔
وہ اخبار کے دوسرے رپورٹروں کی تربیت بھی کرتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے نومبر میں نمونے کے طور پر دہلی کی سڑ کوں پر رہنے والے اور کام کرنے والے بچوں کا ایک سروے کیا اور ہمیں معلوم ہوا کہ تقریباً 1320 بچے سڑکوں پر رہ رہے ہیں اور زبردستی مزدوری کر رہے ہیں۔‘
شنو نے کہا کہ ’ہم پولیس اور حکومت کو بھی بتانا چاہتے تھے کہ اگر ہم ان محدود وسائل کے ساتھ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں تو پھر آپ تمام وسائل اور افرادی قوت رکھنے کے بعد اس سے بہتر سروے کر سکتے ہیں۔‘
شمبھو بھی اخبار کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سروے کے دوران انھیں کئی بار مخالفت اور دھمکیوں تک کا سامنا کرنا پڑا۔
انھوں نے بتایا کہ ’جب ہم ریستورانوں اور ہوٹلوں میں بچوں سے بات کرنے جاتے تھے تو ان کے مالکان ناراض ہوجاتے تھے اور ہمیں دھمکیاں دیتے تھے۔ لیکن ہم نے بھی ان سے صاف کہ دیا تھا کہ اگر انھوں نے ہمیں ان بچوں سے بات کرنے سے روکا تو ہم چائلڈ ہیلپ لائن پر کال کر دیں گے۔‘
اخبار کے رپورٹر یا تو سٹریٹ چلڈرن ہیں یا پھر دہلی اور آس پاس کے علاقوں میں کام کرنے والی چائلڈ لیبر ہے
گھروں، ریستورانوں اور فیکٹریوں میں محبوس بچوں تک پہنچ کر ان سے بات کرنا 15 سالہ چاندنی جونیئر کی زندگی کو ایک مقصد فراہم کرتا ہے۔
وہ ان بے نام بچوں کے دکھ اور خوف کو اپنے اخبار کی کہانیوں میں دہراتی ہے۔ چاندنی جونیئر کو اخبار کی اگلی مدیر کے طور پر بھی نامزد کر دیا گیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنے اخبار کی رسائی کو بڑھانا اور اسے ایک منافع بخش پیشہ بنانا چاہتی ہیں۔ یہ اخبار ان سب کی آواز ہے جنھوں نے سڑکوں پر زندگی کی سختیاں جھیلی ہیں، لوگوں کے گھروں اور دکانوں میں زبرستی کام کیاہے۔اب ہم اپنے اور اس مشکل میں پھنسے دوسرے بچوں کے لیے آواز اٹھا سکتے ہیں۔ ان بچوں کی خاموشی کو توڑنا ہوگا۔‘