نئی دہلی۔ طب یونانی ہندستانی عوام میں مقبول نظام علاج ہے، کم خرچ ہے اور اس میں مستعمل ادیہ آسانی سے دستیاب ہیں، اس کے باوجود سرکاری سطح پر یونانی کو نظرانداز کیا جاتا ہے جس سے ’سب کے لئے صحت‘ کا نشانہ پورا نہیں ہورہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار کل یہاں ’عالمی یوم صحت ‘ کے موقع رحیق گلوبل اسکول، شاہین باغ میں آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے زیراہتمام منعقدہ
مذاکرے میں کیا گیا۔
مذاکرہ کا آغاز کرتے ہوئے حکیم سیداحمد خان ، جنرل سیکریٹری یونانی طبی کانگریس نے کہا کہ 1978میں اس وقت کے وزیر صحت راج نارائن نے صحت خدمات کو دیہات تک پہنچانے کا منصوبہ بنایا۔ کیونکہ مروجہ ایلوپیتھی کے فارغین دیہی علاقوں میں جانے سے کتراتے ہیں اس لئے اس خدمت کو یونانی اطباء اور ایوروید کے فارغین نے بخوبی انجام دیا۔ ہمارے ملک میں پولیو کے خاتمے میں بھی یونانی اطباء نے اہم رول ادا کیا ۔ اس مہم کا نتیجہ ہے ہندستان کو آج عالمی ادارہ صحت نے ’پولیو فری‘ ملک کا سرٹیفکیٹ دیدیا ہے۔
جناب سید احمد خان نے ملک بھر میں یونانی کالجوں اورڈسپنسریوں کے قیام کی ضرورت پر زور دیا تاکہ صحت خدمات کا اچھی طرح انجام دیا جاسکے ۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ جانبدارانہ پالیسی کے تحت محکمہ آیوش یونانی کو نظرانداز کردیتا ہے جب کہ آیوروید کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ انہوں نے کہا ہمارا شکوہ یہ نہیں کہ آیوروید اور ہومیو پیتھی پر خصوصی توجہ کیوں دی جاتی ہے، بلکہ یہ ہے یونانی کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے جب کہ یونانی کی افادیت کسی دیگر دیسی طب سے کم نہیں۔لیکن انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا یونانی طبی کانگریس کے تحت جو جدوجہد کی گئی اور جس میں اس کے بانی صدر جناب اے یو اعظمی ، سابق رکن لوک سبھا نے اہم کردار ادا کیا، کچھ نہ کچھ مسائل حل ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس جدوجہد کو مسلسل جاری رکھنے کے لئے طب یونانی سے وابستہ تمام افراد، اداروں بہی خواہوں کے تعاون پر زور دیا۔
حکیم سیداحمد خان نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پنجاب میں طب یونانی ختم ہوتی جارہی ہے حالانکہ پنجابی عوام یونانی طریقہ علاج کے شیدائی ہیں۔ریاستی حکومت نے ایسی پالیسی بنارکھی ہے جس کی بدولت پنجابی کی سند نہ رکھنے والا سرکاری ملازمت میں نہیں لیا جا سکتا۔ انہوں نیحکومت پنجاب سے اپیل کہ عوام کے مفاد میں اس ضابطہ میں یہ رعایت دی جائے ملازمت ملنے کے بعد پنجابی سند حاصل کرلی جائے اور جن اطباء کو خدمت کا موقع ملے وہ مقررہ مدت میں پنجابی کاسرٹی فکیٹ حاصل کرلیں۔
حکیم عبدالحنان،سبکدوش جوائنٹ ڈائرکٹر، سی سی آر یو ایم نے اپنی مختصر صدارتی خطاب میں کہا کہ عوام میں طب یونانی کے لئے کوئی تعصب نہیں، کیونکہ ان کا تجربہ ہے کہ غیر مسلم مریض بڑی تعداد میں ہمارے مطب میں آتے ہیںاور مطمئن جاتے ہیں۔ لیکن کچھ کوتاہی یونانی معالجین کی طرف سے بھی ہوتی ہے جو یونانی طریقہ علاج کو ترک کرکے ایلوپیتھی کے معالج بن جاتے ہیں۔
دہلی میں محکمہ آیوش کے تحت شعبہ یونانی کے ڈائرکٹر حکیم محمد احمد خان نے کہا کہ انہوں نے راجدھانی دہلی میں یونانی کی 30 ڈسپنسریاں قائم کیں، مگر ان میں سے کئی میں حکیموں کی جگہ پر کرنے کے بجائے وید بٹھادئے گئے۔ انہوں نے شاہین باغ علاقے میں یونانی ڈسپنسری قائم کرنے کی پیش کش کی اور کہا کہ اگر ہم کو جگہ مل جائے تو ڈسپنسری قائم کردی جائے گی۔
مہمان خصوصی سید منصورآغا نے کہا کہ طب یونانی تو ہماری روزمرہ کے استعمال کی طب ہے۔ مختلف امراض میں ہم بہت سے گھریلو نسخے استعمال کرتے اور شفاپاتے ہیں۔ ہمارے مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ طب یونانی بھی پڑھائی جاتی تھی اورہمارے بزرگ حکمت کو خدمت خلق کا ذریعہ سمجھ کر بیماروں کا علاج کرتے اور شفاء بخشتے۔ آج یہ شریف پیشہ بھی تجارت بن گیا ہے اور یونانی طبیب بھی خود کو حکیم کے بجائے ڈاکٹر کہلوانا پسند کرنے لگے ہیں حالانکہ حکیم کا پیشہ، لقب اوراصطلاح زیادہ ہمہ گیر اور پاکیزہ ہے۔اسکول کے ڈائرکٹر جناب ظل الرحمان نے اس موقع پر مہمانوں کا اعزاز کیا اور ان کا شکریہ اداکیا۔