ایک تازہ تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ درمیانی عمر میں زیادہ شراب نوشی سے بعد کی عمر میں یادداشت کے جانے کا خطرہ دوگنا ہو جاتا ہے۔امریکہ میں کی جانے والی تحقیق میں یہ پتہ چلا ہے کہ عمر کی 50 اور 60 کی دہائیوں میں حد سے زیادہ مے نوشی کرنے والے خواتین و حضرات کو بعد کی دو دہائیوں میں یادداشت کے جانے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔یہ تحقیق امریکی جرنل جیریارٹک سائکیاٹری یعنی بڑھاپے سے متعلق نفسیات میں شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ زیادہ شراب نوشی سے بعد کے دنوں میں ذہنی پراسیسنگ (دماغ کے کام کرنے کا عمل) کمزور ہو سکتی ہے۔محقیقین کا کہنا ہے کہ یہ صحت عامہ کا مسئلہ ہے اس لیے اس پر توجہ دیا جانا ضروری ہے۔سائنسدانوں نے درمیانی عمر کے 6500 افراد سے ان کی مے نوشی کی ماضی کی عا
دتوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ہمیں معلوم ہے کہ مئے دماغ کے لیے عام طور پر نقصان دہ ہے۔ یہاں بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ آپ کتنی پیتے ہیں یا آپ کو یہ کتنی متاثر کرتی ہے۔کیا لوگوں نے ان کی زیادہ شراب نوشی کی وجہ سے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا اور انھیں پریشان کیا؟کیا کبھی انھیں اپنی مئے نوشی پر ندامت ہوئی؟
کیا کبھی انھوں نے خود کو درست کرنے یا خمار اتارنے کے لیے سب سے پہلی چیز شراب ہی لی؟ان تینوں میں سے کسی بھی ایک سوال کا جواب جس نے ہاں میں دیا اسے مے نوشی کے مسئلے سے دو چار تصور کیا گیا۔تحقیق میں پایا گیا کہ ایسے لوگوں کو بڑھاپے میں یادداشت کے جانے کا شدید خطرہ ہے۔یونیورسٹی آف ایکزیٹر میڈیکل سکول کے اس تحقیق کے رہنما ریسرچر ڈاکٹر لین لانگ نے بی بی سی کو بتایا: ’ہمیں معلوم ہے کہ مے دماغ کے لیے عام طور پر نقصان دہ ہے۔ یہاں بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ آپ کتنی پیتے ہیں یا آپ کو یہ کتنی متاثر کرتی ہے۔‘انھوں نے بتایا کہ ’اس میں مقدار کی اہمیت ہے اور جب لوگ یہ کہنا شروع کردیں کہ آپ کو مے نوشی کی لت ہے۔‘انھوں نے کہا کہ روزانہ اور ہفتہ وار طور پر مقررہ مقدار میں پیئیں لیکن اگر مذکورہ تینوں سوالات میں سے کسی ایک کا جواب بھی ہاں ہے تو اپنے مے نوشی میں کمی کریں۔