مثل مشہور ہے کہ ضرورت پڑنے پر گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے…لیکن اب تو یہ حال ہے بلکہ برا حال ہے کہ سیاست میں گدھے خود ہی باپ بن بیٹھے ہیں.. لیکن خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ ادب میں اس محاورے میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی اور صنف نازک کے احساسات کا خیال رکھا گیا ہے …جہاں باپ اور گدھے میں ایک ربط خاص پایا جاتا ہے ونہیں ماں کو اسکی عظمتوں کے سبب ایسے محاوروں سے مستشنی رکھا گیا ہے…ویسے آج کل مغرب کے سیاسی ہتھکنڈوں میں حقوق نسواں اور حقوق حیوانات کے بڑے چرچے ہیں …اسقدر کہ میر و مرزا کی شاعری میں معشوق کے بھی نہیں ہونگے…عورت و مرد کی برابری ہر جگہہ ثابت کرنے کی کوششیں جاری ہیں….اچھا ہے، ورنہ مغربی ‘ڈارک ایج’ میں مرد نے عورت کو برابری کا حق دیا ہی کب تھا…جبکہ اسلام نے اسے چودہ سو برس قبل ہی دے دیا تھا ، جسے مہذب انسان تسلیم کرنے راضی ہی نہیں ہوتا تھا …لیکن اب برطانیہ کی خاتون وزیر ہوں یا امریکی صدور، ہر کوئی قرآن کی مختلف آیات سے مساوات کے اسباق مقتبس کر بیان دے رہا ہے، جس میں عورت و مرد کی برابری اور سارے انسانوں کےایک خونی رشتہ میں منسلک ہونے کا ذکر زور و شور سے میڈیا میں کیا جارہا ہے..چلیے کفر کچھ تو ٹوٹا خدا خدا کر کے …لیکن اہل مغرب آج بھی اتنے ہی متعصب ہیں جتنے وہ پہلے تھے .. بس انداز بدل گئے ہیں ..افکار وہی ہیں …عصبیت کی نئی اور عجیب و غریب کونپلیں اب پھوٹنے لگی ہیں…. دور جمہوریت میں سیاست کے عجیب و غریب موسم آنے لگے ہیں ….. اب قدرت نے بھی موسموں کے مزاج میں تبدیلی لا نی شروع کر دی ہے ، اور اب آندھی، سیلاب، قحط اور سونامی کے موسم برپا ہیں….ساون بھادوں بسنت بہار سب قصے کہانیوں اور ادب و شاعری تک محدود رہ گئے ہیں … اب کہاں وہ بہار و خزاں کے رنگ….اب تو بس آجا کر ایک ہی موسم ہے جس کی دھوم رہتی ہے…. اور جسے سیاسی موسم کہتے ہیں … اور جو پت جھڑ سے کچھ کم نہیں ہوتا …عوام کو اب عادت سی ہوگئی ہے اسکے انتظار کی…جس موسم میں کچھ گدھے خود ہی باپ بن جاتےہیں ، اور کچھ بنا دئے جاتے ہیں ….دنیا کے ہر خطے میں اب یہ موسم جمہوریت کے سر پر سوار ہوکر آتا ہے….کبھی مخصوص اوقات میں آتا ہے تو کبھی بن بلائے آجاتا ہے… آج کل یہ موسم ہندوستان کے دو اہم صوبوں میں آیا ہوا ہے..مہاراشٹرا اور ہریانہ میں..شہر ممبئی اوردہلی سے متصل شہر گرگاؤں میں…
جس طرح قدرتی موسم مختلف نشانیوں اور آوازوں سے اپنے آنے کی خبر دیتے ہیں اسی طرح سیاست کے موسم بھی نعروں سے اپنے آنے کی خبر دیتے ہیں….آج کل سیاست میں تبدیلی کا نعرہ ہے جو ہرسو گونج رہا ہے….ہر جگہ Change کا نعرہ بلند کیا جارہا ہے …. ترقی یافتہ مغرب کی تبدیلی بے لگام صارفیت اور بے قابو مادیت پرستی کی عکاس رہی ہے ، وہاں تغیر و توازن دونوں کو ثبات نہیں، جبکہ تبدیلی ایک مشروط انسانی ضرورت ہے اور فطری اور تدریجی عمل کی متقاضی ہے، ہر ایک تبدیلی مثبت اور فایدہ مند ہو یہ ضروری نہیں …. انسانی ضروریات کو منصفانہ طور پر ماپ تول کرجو تبدیلی لائی جاتی ہے وہ مفید ثابت ہوتی ہے .. جو مادیت اور روحانیت میں ایک توازن قائم کرتی ہے .. ورنہ تبدیلی کے نتائج وہی ہوتے ہیں جن سے آج دنیا برسر پیکار ہے.جہاں تبدیلی کے نام پر مزاج ہو یا رواج، صورت ہو یا سیرت بلکہ جنس و نسب بھی تبدیل کر دئے جاتے ہیں…جہاں تغیر مصنوعی طرز فکر و عمل کے تحت وجود میں آتا ہے.. اسے رفتار کی بے لگام گھوڑی سے باندھ کر کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے … گدھوں کو کوچوان بنا دیا جاتا ہے اور جمہوریت کا ریشمی کوڑا انکے ہاتھوں میں تھما دیا جاتا ہے…جو مختلف نعرے لگا کر عوام کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں …. ایکدوسرے کی لائی ہوئی تبدیلیوں پر تبدیلی لانے کے دعوے کرتے ہیں… اب تک جو بھی تبدیلیاں دنیائے جمہوریت میں لائیں گئیں انکا دار و مدار خیر و شر میں توازن کے بجائے لا متناہی انسانی خواہشات پر رکھا جاتا رہا ہے… خواہشات جو کبھی شکم سیر نہیں ہو پاتی اور ھل من مزید کی پکار پر لبیک کہنے کی عادی ہوتی ہے… اب مہذب انسان ہر لمحہ تبدیلی چاہتا ہے..تیز رفتار تبدیلی … اندھا دھند تبدیلی .. اخلاقی اصول و ضوابط سے مبرا تبدیلی …جس کا نتیجہ ہے کہ اب ہر الکشن میں بار دیگر وہی وعدے دہرائے جاتے ہیں جو کبھی کسی سے وفا نہ ہوسکے …اب بھی کہیں سے آوازیں آرہی ہیں …. ہمیں الکشن جتائیے، آپکے بچوں کو رات کی تاریکی میں خوف سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہوگی، یاد رکھیے ہمارا نعرہ گھر گھر بجلی ہے … لیجیے کام تمام ہوا… اب بجلی کو آشیانوں کا پتا چل جائیگا …کوئی سیاسی موسمی بخار میں مبتلا امیدوار کہہ رہا ہے….آپکو اب گھر بیٹھے پانی مل جائے گا….توکیا اب حکومت کی پیدا کردہ گرانی میں بھوک سے تنگ آکر تالابوں میں خودکشی کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی؟…اور کیا لا قانونیت اور عدم تحفظ کی بنا پر عصمت کے لٹنے سے کنووں میں ڈوب کر مرنے کی بھی حاجت نہیں رہی؟…اب کیا جو کچھ بھی ہونا ہے وہ چلو بھر پانی میں ہوگا؟…. اچھا ہوا انہوں نے پچھلے امیدوار کی طرح گھر گھر نلکے لگانے کا وعدہ نہیں کیا …ورنہ عوام پانی کی آس لگا ئے نلکوں کے نیچے سر رکھ کر بیٹھی رہتی…. بلکل اسی طرح جس طرح موجودہ حکومت کی ایک نادر ترکیب پر عمل در آمد کر کروڑوں کی تعداد میں عوام نے بینک میں کھاتے کھول لئے، سرکاری بینکوں نے راتوں رات سب کو کھاتے دار بنا دیا ، انہیں احساس غربت سے نجات دلا دی، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کبھی ایک ساتھ د س ہزار روپے نہ دیکھے ہونگے، اب یہ بیچارے بینک کے ان نلکوں میں سر ڈالے بیٹھے ہیں کہ کب روپیہ پانی کی طرح بہتا آئیگا…انسانی نفسیات سے کھیلنا جمہوریت میں عام بات ہے …اور اس میں کیا مغربی اور کیا مشرقی سارے سیاست دان مشاق ہیں …..
ایک سیاسی امیدوار عمر کی آخری سانس لے رہا ہے لیکن کہہ رہا ہے…. مجھے کامیاب کیجئے اور پھر دیکھیے…محسوس ہوتا ہے ایک نابینا دوسرے نابیناؤں سے دیکھنے کی التجا کررہا ہے…. پتہ نہیں حشر کا سماں دکھانا چاہتا ہے …..کہہ رہا ہے اپنے علاقہ میں وہ قبرستان کی زمین مہیا کردے گا…اور یہ اسکا وعدہ ہے …. موت کا سارا سامان کر رکھا ہے…. اپنا بھی اورعوام کا بھی….ایک جذباتی نوجوان امیدوار کہہ رہا ہے ..اگلے برس بقری عید پر مذبح خانہ کا انتظام علاقے میں ہی کردیا جائیگا…انتظام تو ٹھیک ہے لیکن ہر ایک انتظام ایک نظام بھی تو چاہتا ہے.. کچھ ضوابط و قواعد بھی ضروری ہوتے ہیں ..جو مذبح خانے موجود ہیں ان کا کیا حال ہے؟ اور وہ کتنے فعال ہیں؟.. مسلمان کتنے سلیقے سے یہ پاکیزہ عبادت انجام دیتے ہیں… پوچھے کوئی اس قوم سے جس کا نصف ایمان صفائی پر مشتمل ہے …. ایک امیدوار کو کہتے سنا…طلبا میں مفت لیپ ٹاپ کمپیوٹرز تقسیم کئے جائینگے…. تہذیب جدیدہ کا اثر بھی تو کچھ آنا چاہیے، اس لئے.لیجئے غریبوں کے گھر کے دروازے پر ایک اور سفید ہاتھی باندھ دیا جائیگا…اب کیا کیجیے گا کہ جمہوریت میں غریبوں کو سفید ہاتھیوں سے کافی لگاؤ ہوتا ہے… ایک اور امیدوار کہہ رہا تھا….. مالیاتی بجٹ سے اعلی تعلیم کے لئے مکمل مالی امداد فراہم کی جائینگی….جہا ں بنیادی تعلیم کا فقدان ہو وہاں اعلی تعلیم کے وعدے چہ معنی …. تعلیم کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے …. انہیں یہ نہیں پتا کہ اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو آج بھی مناسب روزگار کے مواقع میسر نہیں ہیں….ایک امیدوار کی فراخدلی کا عالم نہ پوچھیے!! .. غریبوں کو مفت گھر فراہم کرنے کا وعدہ ہی نہیں بلکہ دعوی کر بیٹھے…ان غریبوں کو جنہوں نے شکم سیر ہوکر کبھی کھانا نہیں کھایا ہوگا… اور موسموں سے تحفظ کی خاطر مناسب لباس نہیں خریدے ہونگے….. بلکہ انکی ماں بیٹیوں کو بھیڑیوں کی نگاہوں سے جسم چھپانے کے لئے بھی مناسب لباس میسر نہیں آتا ہوگا…..انہیں گھر فراہم کرنے کاجھوٹا وعدہ!.. شرم ان کو مگر نہیں آتی ….چند سیاسی پارٹیاں ہیں جو طبقاتی، لسانی اور علاقائی تعصب کی ہزاروں سالہ پرانی آگ میں لپٹے ذہنوں کو اتحاد کا نعرہ دے کر بہلا اور پھسلا رہی ہیں ….ایک اور طرفہ تماشا دیکھیے… عارضی عداوت یا زخمی انا کہہ لیجیے کہ دو شدت پسند سیاسی گروہ اپنا اتحاد ختم کر بیٹھے ہیں … اور اب معصوم اور مظلوم اقلیت کو عدل و انصاف کی “وینیلا” دکھا کر رجھانے کی کوشش کررہے ہیں، جو کب کی پگھل چکی ہے.. قتل عام اور فسادات پر جو پردہ ڈال دیا گیا تھا وہ اب امیدواران اور رائے دہندگان کی عقل پر بھی پڑگیا ہے…..ایک سیاسی جماعت جنتا کی پارٹی کہہ کر اقتدار میں آگئی تھی اور اب اپنے پوشیدہ منصوبوں پر اعلانیہ عمل درآمد کروارہی ہے… کوئی پارٹی سیکولر ازم کے نام پر ناراض اقلیتوں کو لبھا رہی ہے تو کوئی ساٹھ سالہ نا معتبر رفاقتوں کا واسطہ دے رہی ہے …خیر یہ تو اغیار کا حال ہے….. مسلمان امیدواروں کا حال ہو یا ماضی، اغیار سے بھی برا ہے.. کوئی حیدری لقب اختیار کر تو کوئی فاروقی لقب اختیار کر اپنے بھائیوں کو ترقی اور تبدیلی کے سراب میں لے جانا چاہتا ہے…..کوئی اکبر تو کوئی مختار بن کر قوم کو ورغلانا چاہتا ہے….کوئی قائد ملت تو کوئی محب قوم اور کوئی حکیم ملت ہونے کا دعوی کر رہا ہے … ان میں کوئی شریف بھی ہوگا … لیکن سوالیہ نشان تو ان پربھی لگ ہی جاتا ہے کہ شرافت و قابلیت کی کیمیا ہے یا نہیں….بے غرضی کی ردا اوڑھے ہوئے ہے یا وہی مادیت پرستی کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں..ان میں سے کسی کی بھی شخصیت میں حیدری یا فاروقی پرتو نظر نہیں آتا ….متقی نہ سہی لیکن تقوی کا کوئی معیار تو ہو ، کوئی مقام تو ہو…اسکی سینکڑوں توجیہات اور دلیلیں ہیں انکے پاس….الغرض کیا خاص اور کیا عام سب دعووں اور وعدوں کے فریب میں آرہے ہیں..جب کہ مذکورہ تمام مراعات شہریوں کو بنا مانگے ملنی چاہیے تھی … یہ انکے بنیادی آئینی حقوق کا حصہ ہیں… جنکے عوض جمہوری حکومتیں وفاداری کا حلف لیتی ہیں اور شہریت دیتی ہیں..انہیں جان و مال کا تحفظ فراہم کرتی ہیں …..ان تمام مراعات کے بغیر کسی شہری کا وفاداری پر قائم رہنا غیر ممکن ہے..اور یہ حقائق تاریخ سے ثابت ہیں…ان بنیادی مراعات کا حصول الکشن کا محتاج کیوں ہے ؟ …. اس کا جواب نہ مغرب کے پاس ہے اور نہ ہی مشرق کے …ان مراعات کی فراہمی کے بعد جمہوریت میں الکشن ہونے چائیے نا کہ وعدوں اور دعووں کے بعد ….الٹی گنگا کا بہنا اسے ہی کہتے ہیں ..یہ جعلی جمہوریت نہیں ہے تو اور کیا ہے …..پھر کسی شہری سے کیسی توقع … کب تک اس سے وفا داری اور بغاوت نہ کرنے کا مطالبہ کارگر ہوگا ، اور کب تک اسکی بغاوت کو دہشت گردی سے موسوم کیا جاتا رہے گا ..کب تک اسکے ٹیکس ادا نہ کرنے کو جرم قرار دیا جا ئے گا. ..کب تک مغربی عالمی سیاسی سازشوں کے جال میں الجھی سیاست سے ملک میں سمجھوتے کیے جائیں گے ….. سیاست کے یہ موسم تو سب مغرب کی دی ہوئی جعلی جمہوریت اور تہذیب کی سوغاتیں ہیں … انسان نے اوکھلی میں سر ڈال ہی دیا ہے تو اب اور کیا کرسکتا ہے…. ہاں قدرت کی طرف سے تبدیلی کا انتظار ضرور کرسکتا ہے… اور قدرت جب تبدیلی لاتی ہے تو پھر انسان کی لائی ہوئی سب تبدیلیاں تبدیل ہوجا تی ہیں .. لیکن پھر شکست و ریخت کے تدریجی عمل سے گزر نا نا گزیر ہوجاتا ہے… پھر موسم بدلنے لگتے ہیں …پھر بہاروں کی آمد ہوتی ہے….چمن میں، سیاست میں، تجارت میں، بلکہ حیات انسانی کے ہر ایک شعبے میں. خالق حقیقی کا دعوی سچا ہے کہ….فان مع العسری یسری.. ان مع العسری یسری ….
جمہوری سیاست میں سب کچھ جائز کردیا گیا ہے… گھوڑوں کی ‘ٹریڈنگ ” ہو یا گدھوں کی… میڈیا ہو یا آئیڈیا.. کیا انسان اور کیا ایمان…. سب کچھ بکتا ہے اور خریدا جاتا ہے…. مسلمان کو اپنا فرض نباہنا ہے… عہد و پیمان کی پابندی کرنا ہے…مستحق امیدوار پر اپنی رائے کی مہر لگانا ہے…اگر امیدوار مستحق نہیں ہے تو یہ گواہی نہیں دینا ہے…..چاہے جو بھی ہو… ویسے بھی مسلمان کے ساتھ اور اب کیا برا ہونا ہے….اور کس کس سے ہونا ہے .. اب اور کون بچا ہے آزمانے …مسلمان بھی تو اب مادی ترقی کا دیوانہ ہوا جاتا ہے … دنیا کو قید خانہ اور دارالامتحان سمجھنے کے بجائے جنت سمجھ رہا ہے….سب کچھ یہیں پانا چاہتا ہے ….اغیار کا کیا ہے، وہ کم از کم اخروی جنت کے دعویدار تو نہیں ہیں….مسلمان کس خوش فہمی کا شکار ہے… دونوں جنتیں چاہتا ہے..خیر یہ تو خالق حقیقی کی مہربانی پر منحصر ہے…. جسے چاہے یہاں بھی دے اور وہاں بھی.. وہ جب نوازنے پرآتا ہے تو کیا مسلمان اور کیا گدھا… کیا پتا کس کو کب وہ کیا دے….ویسے تو مومن اپنا محتسب خود ہوتا ہے… لیکن سیاسی امیدوار کا احتساب اسے ہی کرنا ہے ….کیونکہ جمہوریت میں امیدوار اپنا احتساب خود نہیں کیا کرتے ….سیاست میں سارے سر گرم جو ہوتے ہیں …. جمہوریت میں سیاست کے موسم بھی گرم ہوتے ہیں….جلنے جلانے کے امکانات بہت ہوتے ہیں .. ذرا سنبھل کے با با !!..سیاست اب گرم ہوگئی ہے