لندن: عورت اور مرد کا دماغ ان کے برتاؤ کو کس حد تک کنٹرول کرتا ہے؟ اس سوال کا جواب تاحال ماہرین نفسیات کے پاس بھی نہیں۔ لیکن اس حقیقت سے ہم سب پوری طرح آشنا ہیں کہ بعض کاموں کی انجام دہی کے لیے مرد اور بعض کے لیے عورتیں زیادہ اچھی ہوتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق اسی نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے ‘ویانا یونیورسٹی’ کے محققین نے ایک مفصل مطالعاتی جائزہ پیش کیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ مرد اور عورت ذہنی دباؤ کی حالت میں ایک دوسرے سے مختلف برتاؤ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس صنفی فرق کی نشاندہی کرتے ہوئے ماہرین کہتے ہیں کہ ذہنی دبا
ؤ کی حالت عورت خود کو اپنی سہیلیوں سے زیادہ قریب کر دیتی ہے جبکہ اس کے برعکس مرد دباؤ کی حالت میں خود کو اپنی ذات تک محدود کر لیتا ہے۔ نفسیاتی رسالے ‘سائیکو نیورو اینڈو کرینولوجی جرنل’ میں شائع ہونے والے مطالعے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ مرد اور عورت ذہنی دباؤ کی حالت میں عملی طور پر مخالف طریقوں سے اس پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مرد اس موقع پر زیادہ انا پرست بن جاتا ہے لیکن دوسری جانب عورت میں دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ‘ویانا یونیورسٹی’ کے پروفیسر کلاز لام کی رائے میں اسٹریس سے عورت کی سماجی برتاؤ کی مہارت میں اضافہ ہوتا ہے۔
خاص طور پہ عورتوں میں اپنی ذات کے لیے سوچنے کے معمول کے رویہ پر دباؤ غالب آ جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کا برتاؤ دوسروں کے ساتھ ہمدردانہ ہو جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کی ٹیم نے مطالعے سے اخذ کیا ہے کہ مرد دباؤ کی حالت میں لڑائی یا فرار میں سے کوئی ایک طریقہ اپناتا ہے اور اپنی توانائی کو محاذ آرائی کے لیے بچا کر رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کا یہی ڈر اسے تنہا کر دیتا ہے اور وہ خود کو اپنے اندر قید کر لیتا ہے۔ البتہ دوسری طرف اس کی ہم منصب عورت دباؤ کی حالت میں دوستی بڑھانے کی کوشش کرتی ہے۔ ماہرِ نفسیات کلاز لام کے مطابق لوگوں میں دباؤ سے نمٹنے کی حکمت عملی کے طور پر دو بنیادی رویے ظاہر ہوتے ہیں جس میں یا تو وہ خود کو اپنی ذات تک محدود کر لیتے ہیں یا متبادل کے طور پر زیادہ کھلے دل سے دوسروں کے ساتھ میل جول بڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ لوگوں پر کون سا طریقہ زیادہ حاوی ہوتا ہے؟ یہ معلوم کرنے کے لیے محققین نے 40 مرد اور 40 عورتوں کو مطالعے کے شرکاء کے طور پر بھرتی کیا جن کی عمریں 18 سے 40 برس کے درمیان تھیں۔ شرکاء کی نصف تعداد کو دباؤ کی صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے کہا گیا جس میں انھیں مقررہ وقت کے اندر ناظرین کے سامنے ریاضی کی کارکردگی دکھانی تھی۔ محققین نے شرکاء کی بقیہ نصف تعداد کو اتنے ہی وقت کے لیے غیر دباؤ والی خوشگوار سرگرمیوں میں مصروف رکھا۔ ماہرین نے شرکاء کے اپنے احساسات اور دوسروں کے بارے میں ان کے تصورات کے درمیان تمیز پیدا کرنے والی صلاحیت کی پیمائش کرنے کے لیے ان سے تین مختلف طرح کے ٹاسک بھی مکمل کرائے۔
محققین نے بتایا کہ نتائج سے یہ واضح ہو گیا کہ دباؤ کی حالت میں عورتوں میں پرسکون نظر آنے والے اپنے ہم منصب مردوں کی بہ نسبت دوسروں کے نقطہ نظر کی تفہیم زیادہ بہتر تھی۔ البتہ مردوں پر اس کیفیت کا مخالف اثر ہوا تھا جو ان میں دوسروں کے احساسات کو سمجھنے کی صلاحیت کو کمزور بنا رہی تھی۔ مطالعے کی شریک مصنف جورجیا سلانی کا کہنا ہے کہ انساجی جسم کی طرح انسان کے دماغ کے برتاؤ کا دارومدار بھی ہارمونز پر ہو تا ہے۔ اسی لیے رویوں کے اس صنفی اختلاف کو ‘اوکسیٹوسن نظام ‘ کا فرق قرار دیا جا سکتا ہے۔ اوکسیٹوسن ایک ہارمون ہے جو انسان کے سماجی رویہ کے ساتھ منسلک ہے۔ ایک دوسری تحقیق بتاتی ہے کہ اسٹریس کی حالت میں عورتوں میں مردوں کے مقابلے میں اوکسیٹوسن کی سطح بلند ہوتی ہے۔ محققین اس صنفی تقسیم کی وجوہات کے بارے میں لاعلم ہیں۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ مطالعے میں اہم بات یہ تھی کہ یہاں صنفی اختلافات جسمانی نہیں تھے بلکہ دباؤ کی حالت میں مردوں اور عورتوں دونوں نے ہی ایک ہی طرح کا جسمانی ردعمل ظاہر کیا۔ پروفیسر کلاز لام کے بقول تحقیق کے نتیجے میں فرق صرف ان دونوں کے ذہنی دبائو سے نمٹنے کی حکمت عملی میں نظر آیا ہے۔