لکھنؤ: لکھنؤ میں ابھی تک لاکھوں لوگ آدھار کارڈ نہیں حاصل کر سکے ہیں جس کی اہم وجہ دومحکموں کے مابین جھگڑا ہے۔ اب چونکہ عدالت نے کہہ دیا ہے کہ بنیادی خدمات کیلئے آدھار کارڈ ضروری نہیں ہے اس لئے عوام نے راحت کی سانس لی ہے ورنہ لوگ آدھار کارڈ کیلئے پریشان رہتے تھے۔ ضلع انتظامیہ کی لاپروائی اور بے اعتنائی کی وجہ سے لاکھوں باشندے آدھار نمبر سے محروم ہیںجبکہ آدھار نمبر بنانے والی مردم شماری ڈائریکٹوریٹ کی ٹیم چاق و چوبند ہے۔
سپریم کورٹ نے آدھار نمبر کی لازمیت کو ختم کر دیا ہے اس کے باوجود شناخت کیلئے یہ نمبر بہت ہی اہم ہے۔ ابتداء میں اس پر اچھا کام بھی ہوا لیکن دوسری اچھی اسکیموں کی طرح چند قدم چل کر یہ اسکیم بھی بے دست و پا ہو گئی۔اتنا ہی نہیں کچھ ایسے جعلساز اور بدعنوان افسران بھی آئے جنہوں نے غریبوں سے ۵۰۰ روپئے تک کی غیر قانونی وصولی بھی شروع کر دی تھی۔ مردم شماری ڈائریکٹوریٹ بخشی کا تالاب سے آدھار کارڈ بنانے کا کام شروع کرنے والا تھا لیکن ضلع انتظامیہ کے غیر ذمہ دار افسران نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ آئندہ ماہ دسہرا اور بقر عید ہے جس میں الجھنا پڑے گا۔ فی الحال لکھنؤ میں آدھار کارڈ بنانے کی اسکیم اوندھے منھ پڑی ہے۔
اے ڈی ایم مالیات و محصول سنجے کمار سنگھ یادو کا کہنا ہے کہ آدھار کارڈ بنانے کی تاریخ کا اعلان وقت پر کر دیا جائے اور تین چار دن میں اس کا اعلان بھی کیا جا سکتا ہے۔ مردم شماری ڈائریکٹوریٹ کے جوائنٹ ڈائریکٹر پردیپ کمار نے بتایا کہ بخشی کا تالاب سے آدھار نمبر کیلئے تفصیل کا جمع کیا جانا شروع ہونا تھا۔ مردم شماری ۲۰۱۱ کی بنیاد پر مقامی اور دوسری جگہ کے لوگوں کو اپنا پتہ بتانا تھا۔
کے وائی آر کے حصول کی تیاری اور کام ابھی تک شروع نہیں ہوسکاہے جس کی وجہ سے آدھار کارڈ بننے کا کام نہیں ہو پا رہاہے۔ جوائنٹ ڈائریکٹرنے کہا کہ جب تک ضلع انتظامیہ لائن آف ایکشن بناکر نہیں دیتی ہے اس وقت تک کام نہیں شروع ہو پائے گا۔انہوں نے بتایا کہ آدھار نمبرکیلئے تفصیلات جمع کرنے کی خاطر ۱۵۰ سے لیکر ۷۵۰ تک لوگوں کیلئے کیمپ لگایا جا رہا ہے جس میں کم سے کم مردم شماری سے جڑے ۶۰ سے ۸۰ فیصد افراد کا آدھار کارڈ ہے۔
۱۰۰ فیصد تفصیلات جمع کرنے کیلئے تین دن کا کیمپ لگایا جاتاہے جس میں ۶۰ سے ۷۰ فیصد کام ہوپاتاہے۔ باقی ماندہ افراد سے دوسرے مرحلہ میں تفصیلات جمع کرنے کیلئے کیمپ لگایا جائے گا جبکہ تیسرے مرحلہ میں کارڈ کی خامیوں کو دور کیا جائے گا۔