رامپور(نامہ نگار)۔ آج رامپور رضالائبریری جلسہ گاہ خیابان رضا میں تین روزہ سیمنار ’’مکتوبات وتذکرہ ہندوستانی تاریخ اور ثقافت کے ذرائع ‘‘موضوع کاافتتاح ریاستی گورنر رام نائک اور رامپور رضالائبریری بورڈ کے صد رکے ذریعہ شمع روشن کرکے مشترکہ طور پر کیا گیا۔ سیمنارمیں پروفیسر ایم اے علوی شعبہ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے کلیدی مقالہ پیش کیا۔ سیمنار کاافتتاح ڈاکٹر انوار الحسن قادری کی تلاوت قرآن پرک اور سید نوید قیصر شاہ کی نعت پاک سے ہوا۔ صدارتی خطبہ میں ریاستی گورنر رام نائک اور رضا لائبریری بورڈ کے صدر نے رام پور رضالائبریری کے ذریعہ شاید گذشتہ برس کی حصولیابیوںکی رپورٹ کااجراء کیا۔ اس وموقع پرریاستی گورنر رام نائک اور رضا لائبریری بورڈ کے صدر نے کہا کہ تیرہویں سے انیسویںصدی تک ملک میںکیا کیا انقلاب ہوئے۔ اس بین الاقوامی سیمنارسے ریسرچ اسکالروں اور طلباء کواہم معلومات حاصل ہوںگی ۔ملک کی تاریخ کاتجزیہ صحیح طریقے سے تاری
خ دانوں کوکرنا چاہئے ۔ ۱۸۵۷کو صرف غدرکے طورپردیکھنا غلط ہے ۔کیونکہ ۱۸۵۷میں ہندوستان کی جنگ آزادی شروع ہوئی تھی۔ انھوںنے کہا کہ رامپور کی شناخت رامپور رضالائبریری کے طور پر ہوتی ہے۔ اور یہ ضلع اترپردیش کی شان ہے ۔ریزور بینک اگر خزانے کاذخیرہ ہے تو رام پوررضا لائبری کے پاس علم کا خزینہ ہے ۔مسٹر نائک نے مزید کہا کہ جب دنیا کے لوگوںکویہ بھی نہیں معلوم نہیں تھا کہ کپڑے کس طرح پہنے جاتے ہیں اس وقت ہندوستان کے دانشوروںنے الفاظ کو زبان میںتبدیل کرکے پتوں پرتحریر کرنا شروع کردیا تھا۔ خوشی کی بات ہی ہے کہ رام پور رضالائبریری میں ۲۰۴تاڑکے پتوںکاخزانہ ہے ۔انھوںنے کہا کہ آج لائبریری کی حصولیابیوں کارپورٹ کااجراء کیا گیا ہے اس رپورٹ کے ذریعہ لوگوںکومعلوم ہوگا کہ رضا لائبریری میںگذشتہ برسوںمیںکیاکیا حاصل کیا ہے اورمستقبل میںرضالائبریری کے ذریعہ ریسرچ کے میدان میںکیا کیا کیا جائے گا۔ اس موقع پر ایم اے علوی عربی شعبہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے خصوصی مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اخیارالاخبار میں ۲۵۵صوفیوںاورعلماء کا ذکر ہے ۔ جس کے مطابق ہندوستانی تاریخ اور ثقافت کے بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں انھوںنے کہا کہ گلبدن بیگم کاہمایوں نامہ جوہر آفتابچی کا تذکرۃ الواقعات ، تاج المآثر اور ابوالفضل کااکبر نامہ ، آئینہ اکبری ، عبدالقادر بدایونی کی منتخب تواریخ اکبرکے وقت کے بیش قیمت تذکرے ہیں۔ گجرات ،مہاراشٹر ، بنگال ، دکن اودھ کے علماء ،صوفیوں وامراء کے تذکرے عربی اور فارسی زبان میں تحریر ہیں۔مذکورہ مخطوطات سے ہمیں اس وقت کی تاریخ اور تہذیب کوسمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ لائبریری کے ڈائرکٹر ایس ایم عزیز الدین حسین نے کہا کہ آج ملفوظات اور مکتوبات کے تذکرہ کاجو خزانہ موجود ہے وہ لوگوںکو وابستہ کرنے کاکام ہندوستانی تاریخ پرآج بھی اتنا کام نہیں ہوا ہے لیکن انگریزوںنے اس کاانگریزی میںترجمہ کرکے اس کو دیگرممالک میںپھیلایاہے ۔انھوںنے کہا کہ آزادی کے ۶۵برس گذرنے کے بعد بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ ، جموںیونیورسٹی ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ابھی تک مکتوبات اورتذکرات کی تعلیم نہیں دی جاتی ہے ۔ انھونے کہا رضا لائبریری میںگذشتہ سال مذکورہ موضوعات پر سیمنارکاانعقاد کرایا۔ افتتاحی تقریب کے بعد گورنر رام نائک ولائبریری بورڈ کے صدر نے لائبریری کامعاینہ کیا۔ اس موقع پرریاستی گورنر نے حضرت علی کے تحریر کردہ نایاب قرآن شریف، بالمیکی راماین ، تاڑ کے پتوں پرتحریر بیش قیمت مخطوطات وغیرہ کودیکھا۔ پروگرام کی نظامت ارون کمار سکسینہ نے کی اس موقع پرضلع مجسٹریٹ چندرپرکاش ترپاٹھی ، ایس پی ، اے ڈی ایم، ایس ڈی ایم ، جوالا پرشاد گنگوار ، سعادت اللہ خاںسابق رکن اسمبلی بلاسپور ،ڈاکٹر مہدی حسن ، بیگم ماہ پارا،ستیش بھاٹیہ ،سید سرفراز وغیرہ موجود تھے۔