کیا ایسا کوئی پرستار ہو سکتا ہے جو اپنے پسندیدہ اداکار کے پوسٹر شائع کرنے کے لیے اپنا گھر فروخت دے؟ ہاں ضرور ہو سکتا ہے، جب یہ اداکار اور کوئی نہیں بلکہ سپر سٹار رجنی کانت ہوں۔ایسے ایک نہیں، بلکہ بہت سے پرستار ڈاکیومنٹری فلمساز رک کالسی کی دستاویزی فلم ’فار دا لو آف اے مین‘ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ایمسٹرڈیم سے تعلق رکھنے والی اور ممبئی میں پلی بڑھی رک کالسی نے اداکار رجنی کانت کے مداحوں پر ایک دستاویزی فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔ تب شاید انھوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ یہ تجربہ ان کے لیے کتنا خاص رہے گا۔چار سال سے اس ڈاکومنٹری پر کام کرنے والی رک کالسی نے بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’میں ایمسٹرڈیم میں ٹیلی ویڑن کے لیے ایڈیٹنگ اور دیگر کمشنڈ پروجیکٹ پر کام کرتی ہوں۔ میرے دوست اور اس فلم کے پروڈیوسر جیوجیت پال کے ساتھ بات چیت کے دوران مجھے جنوبی ہند میں رجنی کانت کے کریز کے بارے میں پتہ چلا اور وہیں سے مجھے یہ ڈاکیومنٹری بنانے کا خیال آیا۔‘”میں ایمسٹرڈیم میں ٹیلی ویڑن کے لیے ایڈیٹنگ اور دیگرکمشنڈ پروجیکٹ پر کام کرتی ہوں۔ میرے دوست اور اس فلم کے پروڈیوسر جیوجیت پال کے ساتھ بات چیت کے دوران مجھے جنوبی بھارت میں رجنی کانت کے کریز کے بارے میں پتہ چلا اور وہیں سے مجھے یہ ڈاکیومنٹری بنانے کا خیال آیا۔”جیوجیت پال مشی گن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔انھوں نے بی بی سی ہندی کو بتایا: ’میں تمل ناڈو کے انتہائی غریب اور اندرونی علاقوں کے بچوں میں کمپیوٹر پر تحقیق کر رہا تھا۔ یہ اس سال کی بات ہے جب رجنی کانت کی فلم ’شیواجی‘ ریلیز ہوئی تھی۔ سارے بچے کمپیوٹر انجینئر بننا چاہتے تھے کیونکہ ’شیواجی‘ میں رجنی کانت نے کمپیوٹر انجینئر کا کردار نبھایا اور وہ اس فلم میں اپنے لیپ ٹاپ کی مدد سے ملک کو بچاتے ہیں۔‘چنئی کے گوپی چنے فروخت کرتے ہیں۔ گوپی کو ان کے علاقے کے فین کلب میں برتری حاصل کرنے کے لیے سپر سٹار کے ۱۵۰۰ پوسٹر شائع کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ۲۰۰۵ء میں رجنی کانت کی فلم ’چدرمکھی‘ ریلیز ہو رہی تھی۔رک کالسی نے بتایا: ’گوپی کے لیے فین کلب میں برتری بہت بڑی بات ہے اور جب کوئی دوسرا راستہ سجھائی نہیں دیا تو گوپی نے اپنا چھوٹا سا گھر ایک لاکھ روپے میں فروخت کر کے پوسٹر چھپوائے جب کہ انھیں اس کے تین لاکھ روپے مل سکتے تھے۔ وہ دو ماہ تک اپنے پورے خاندان کے ساتھ فٹ پاتھ پر رہے۔‘رجنی کانت کے پرستار ان کی فلم ریلیز ہونے پر منت مانگتے اور عبادت کرتے ہیں ۔رک کالسی نے ۲۰۱۰ میں ’ادیرن‘ (ہندی میں روبوٹ) کی ریلیز سے پہلے چنئی میں رجنی کانت کے پرستاروں اور فلم ناقدین کے انٹرویو لینے شروع کیے۔صبح چار بجے فلم کا پہلا شو دکھایا جانا تھا۔ رجنی کانت کانت کی فلم کی کامیابی کے لیے عبادت کی جا رہی تھی۔ویللور کے پاس ایک گاؤں میں رہنے والے این سورج رجنی کانت کے فین کلب کے سربراہ ہیں۔’ادیرن‘ کی کامیابی کے لیے وہ فین کلب کے اراکین کے ساتھ عبادت کرنے کے لیے گاؤں کے پاس کے مندر کی ۱۳۰۰ سیڑھیاں اپنے گھٹنوں کے بل چڑھے تھے۔ ۲۰۱۲ میں جب رجنی کانت بیمار تھے تو دسمبر میں ان کے یوم پیدائش پر ان کے گھر کے باہر بہت رش تھا اور رجنی کانت نے گھر کی بالکنی میں آ کر پرستاروں سے خطاب کیا اور اپنے تندرست ہونے کا یقین دلایا۔انھوں نے اپنے خطاب میں پرستاروں کو تمباکو نوشی چھوڑنے کی بات کی۔رک کالسی کے مطابق وہ رجنی کانت کے متعدد پرستاروں سے ملیں جنھوں نے اپنے گھر والوں کی بات سالوں تک نہیں مانی تھی لیکن رجنی سر نے بولا اس لیے انھوں نے تمباکو نوشی چھوڑ دی۔دنیا بھر میں رجنی کانت کے زیادہ فین کلب ہیں، رجنی کانت کو اپنے پرستاروں سے درخواست کرنی پڑی کہ وہ اب اور نئے فین کلب نہ بنائیں۔ پھر بھی بہت سے نوجوانوں نے آن لائن کلب بنائے۔”گوپی کے لیے فین کلب میں برتری بہت بڑی بات ہے اور جب کوئی دوسرا راستہ نہیں دکھا تو گوپی نے اپنا چھوٹا سا گھر صرف ایک لاکھ روپے میں فروخت کر کے پوسٹر چھپوائے جب کہ انھیں اس کے تین لاکھ روپے مل سکتے تھے۔ وہ دو ماہ تک اپنے پورے خاندان کے ساتھ فٹ پاتھ پر رہے۔”یہ تمام کلب رجنی کانت کی فلمز ریلیز ہونے پر منت مانگتے اور عبادت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سپر سٹار کے نام سے چندہ جمع کر کے غریبوں کو اور معذوروں کو صدقہ دیتے ہیں۔ یہ کلب خون کا عطیہ کیمپ جیسے منظم بھی کرتے ہیں۔ان کلب میں ۱۶ سال سے لے کر ۹۰ سال کے عمر کے افراد ہیں۔رک کالسی روال برس اپریل میں رجنی کانت کی ریلیز ہونے والی فلم ’کوچاڈین‘ کے دوران بھی ان کے پرستاروں کی سرگرمیوں کو کور کریں گی۔رک کالسی کی فلم بنانے کے لیے چینئی میں ان کے ساتھ کام کرنے والے عملے کے ارکان نے ان سے کہا: ’یہ فلم رجنی سر پر بن رہی ہے تو ہم اس کے لیے آپ کے ساتھ مفت کام کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔‘رک کالسی کہتی ہیں: ’یہ ہے سپر سٹار رجنی کانت کا جادو۔ ان کے پرستاروں کی دیوانگی کی کوئی حد نہیں ہے۔‘