روس کے صدر ولادی میرپوتن پچھلے ایک ہفتے سے منظرعام پر نہیں آئے جس کے باعث روسی اور عالمی میڈیا میں ان کی صحت کے حوالے سے چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ صدر پوتن نے آخری بار پانچ مارچ کوماسکو دورے پر آئے اطالوی وزیراعظم ماٹیو رینٹزی سے ملاقات کی تھی جس کےبعد وہ منظرعام سے مسلسل غائب ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق روسی ذرائع ابلاغ نے صدر پوتن کی سنہ 2012ء میں علالت کی تصدیق کی تھی۔ 26 اکتوبر 2012ء کو
برطانوی خبر رساں ایجنسی “رائیٹرز” نے ماسکو حکومت کے تین الگ الگ ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ صدر پوتن کو ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف ہے، جس کی وجہ سے انہیں سرجری کرانا ہوگی۔
روسی حکومت کے ایک سرکردہ ذریعے نے یہ بتایا تھا کہ کمر درد کی وجہ سے صدر پوتن نے بیرون ملک دورے منسوخ کردیے ہیں تاہم ماسکو وزارت خارجہ کے ترجمان ڈیمتری بیسکوف کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ورزش کے دوران صدر کی کمر کے پٹھوں میں تکلیف ہوئی تھی تاہم ان کی سرجری کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
نومبر 2012ء میں روسی اخبار’’فیڈ موسٹی‘‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ صدر پوتن کو دورہ سائبیریا کے دوران پرانا کمر درد دوبارہ ہوا تھا، جس کے بعد انہیں فضائی سفر کرنے سے گریز کا مشورہ دیا گیا۔
27 نومبر 2012ء کو بیلا روس کے صدر الیکذنڈر لوکا شنکو نے صدر پوتن کی خرابی صحت کی تصدیق کی تھی۔ ایک انٹرویو میں صدر لوکا شنکو کا کہنا تھا کہ ’ہاں مجھے صدر پوتن کی بیماری کا علم ہے۔ انہوں جوڈو بہت پسند ہے۔ جوڈو کھیلتے ہوئے انہوں نے ایک نوجوان کو اٹھا کرزمین پر دے مارا تھا جس کے باعث ان کی ریڑھ کی ہڈی میں درد نکل آیا تھا۔
تین سال قبل علالت کی خبروں کے منظرعام پر آنے کے تین ماہ بعد صدر پوتن نے پہلا بیرون ملک دورہ ترکی کا کیا تھا۔ اس دورے میں انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم رجب طیب ایردوآن سے استنبول میں ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے موقع پر بھی صدر پوتن کو ان کے ایک معاون نے بیٹھنے میں مدد کی تھی تاہم وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ تھا کہ اگر صدر پوتن بیمار ہیں تو وہ خود اس کا اظہار کیوں نہیں کرتے۔ عالمی میڈٰیا میں ان کی علالت کی خبریں کیوں کر شائع کی جا رہی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایک تندرست توانا شخص جس میں کوئی بیماری موجود نہ ہو وہ کیوں خود کو بیمار ظاہر کرے گا۔ تاہم سنہ2012 کے آخر میں صدر پوتن نے ایک نیوز کانفرنس میں اپنی علالت کا اعتراف بھی کیا تھا۔