ہندوستانی سماج اس گلستاں کی مانند ہے جس میں طرح طرح کے پھول کھلے ہوتے ہیں جن کی رنگت الگ الگ اور جن کی خوشبوئیں الگ الگ ہوتی ہیں اور ہر شخص اپنی پسند اور خواہش کے مطابق پھولوں اور خوشبوئوں سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے سماج کو ایک ایسے وفاق سے بھی تشبیہ دی جاسکتی ہے جو مختلف مذہبی اکائیوں اور نسلی گروہوں پر مشتمل ہے، اس کی یہ وفاقی شکل ہماری تاریخ کے مختلف ادوار میں ایک تدریج کے ساتھ ابھری ہے۔ ماضی کی تاریخ کا ایک پورا سلسلہ عمل اس کی پشت پر ہے اور اس کی یہی وفاقی نوعیت اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ سیاسی، سماجی، ثقافتی اور معاشی دائروں میں کوئی بھی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جو ہمارے سماج کی اس ساخت کو جو کسی جبر و دبائو کے بجائے اپنے آپ ابھری ہے، کوئی نقصان پہنچانے والا یا کسی بھی نوع سے اور کسی بھی درجے میں اسے مجروح کرنے والا ہو۔ ہمارے اس ملک میں انفرادیت اور فرقہ واریت مسئلہ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد بھی، بنیادی طور پر صرف اسی سبب سے پیدا ہوا کہ یہاں کچھ ایسے لوگ ہمیشہ ہی موجود رہے ہیں جو اپنی سوچ کو اِس گلستانِ رنگ و بو کی رنگا رنگی اور اس کی وفاقیت سے ہم آہنگ نہیں کرسکے۔ ان کے ذہن میں یہ بات ہمیشہ موجود رہی ہے کہ ہندوستانی سماج کو بہر صورت یک رنگ ہونا چاہئے۔ یہ لوگ مختلف تہذیبی دھاروں کو ایک دھارے میں سمودینے کے قائل ہیں جس کے لیے یہ لوگ وقت بے وقت طرح طرح کی بولیاں بولتے رہتے ہیں اوروطن کی آبرو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
2014 کے پارلیمانی الیکشن کے نتائج کے بعد فرقہ واریت کے علمبرداروں میں پہلے کے بہ نسبت کچھ زیادہ ہی جوشِ جنوں دیکھنے میں آرہا ہے۔ ہندوستانی سماج کی وفاقی ساخت کو قبول نہ کرنے والا اب یہ گروہ ملکی تہذیب و ثقافت کی یک رنگی کے علاوہ قانون کے دائرے میں بھی یکسانیت کا طالب ہے اور مختلف مذہبی اکائیوں کے شخصی قوانین کو بھی قومی اتحاد کی راہ میں روڑہ قرار دینے لگا ہے۔ جبکہ ہمارے آئین نے ملک کے ہر شہری کو چاہے وہ اقلیت میں ہو یا اکثریت میں، اسے برابر کا حق دیا ہے۔ لیکن فرقہ پرست طاقتیں اسے ماننے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ نہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ کچھ مفروضوں اور موضوعہ مقدمات کی بنیاد پر اسے ’قومی یک جہتی اور قومی اتحاد‘ کے لیے ایک سنگین خطرہ تصور کرتے ہیں اور ان کا یہی احساس ہے جو ملک کے فرقہ وارانہ ماحول کو آتش بار بنانے کا سبب بنتا رہتا ہے۔ آج پورے ملک خصوصاً صوبہ اترپردیش میں جو لہو پوش فضا بنی ہوئی ہے وہ انہیں طاقتوں کی دین ہے۔ ایک سیکولر ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کردینے اور ملک کے ہر شہری کو ہندو قرار دینے کے پس پشت ان طاقتوں کے عزائم کا اندازہ لگالینا اب کچھ مشکل نہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ فرقہ واریت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اولین ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ذہن اس معاملے میں بالکل صاف ہوں کہ ہم اپنے سماج کو یک رنگ بنانا چاہتے ہیں یا اس کی رنگا رنگی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ اقلیتیں جب بھی اپنی تہذیبی دینی انفرادیت کے حوالے سے بات کرتی ہیں تو ان پر ہر طرف سے ہی الزامات کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے۔ اپنے آپ کو خالص راشٹروادی کہنے والے لوگ ہوں یا بہت ہی اونچے درجے کے ترقی پسند، سب کے سب اپنی اپنی کمین گاہوں سے تیر اندازی شروع کردیتے ہیں اور اگر ان کی باتوں کا تجزیہ کیا جائے تو ترقی پسند اور رجعت پسند دونوں ہی ایک صف میں کھڑے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ’’راشٹروادی‘‘ اس طرح کا طرز عمل اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک قومی یک جہتی کا جو تصور ہے وہ ہر میدان میں عملاً یکسانیت کو یک جہتی کی بنیاد قرار دیتا ہے اور ترقی پسند حضرات اس کی مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ جس طرح کا سماج بنانا چاہتے ہیں اس میں مذہب کا کوئی عمل دخل برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں مذہب انتشار و خلفشار کے دروازے کھولتا ہے۔ مثال کے طور پر مسلم پرسنل لا کو ہی لے لیجیے، نام نہاد راشٹروادیوں کا یہ کہنا ہے کہ شریعت پر مبنی قوانین مسلمانوں میں علاحدگی پسندی کے جذبے کو پروان چڑھاتے ہیں، وہ قومی یک جہتی اور قومی اتحاد کی راہ میں سنگِ گراں بنے ہوئے ہیں جبکہ ترقی پسند اسے سیاسی اور عائلی اُمور میں مذہب کی مداخلت اور کسی نہ کسی درجے میں اس کی بالادستی کی علامت تصور کرتے ہیں اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طرح کی مداخلت کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو وہ سماج وجود میں نہیں آسکے گا جو ان کے نظریات و افکار کے لیے بہت ہی زرخیز زمین فراہم کرتا ہے۔ ان کے اسی فاسق نظریے کی وجہ سے ہی شاید یہ لوگ ملک کے ایک خاص طبقے تک ہی محدود ہوکر رہ گئے بلکہ یوں کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ اب یہ ناپید ہوکر ہی رہ گئے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ فرقہ واریت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہمیں بہت ہی واضح الفاظ میں مذہب اور سماج یا دوسرے لفظوں میں مذہب اور سیاست کے باہمی رشتے کا تعین بھی کرنا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ بہت ہی دو ٹوک انداز میں یہ بات بھی واضح کرنی ہوگی کہ ہمارے اپنے پس منظر میں سیکولرزم کا حقیقی مفہوم کیا ہے، ہم اپنے یہاں سیکولرزم کا جو تصور رائج کرنا چاہتے ہیں وہ مذہب کی نفی کرتا ہے یا مختلف مذہبی اکائیوں کے وجود کو ان کی انفرادیت کو تسلیم کرکے ریاست کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ نہ تو مذہبی امور میں مداخلت کرے اور نہ ہی مختلف مذہبی اکائیوں کے درمیان کسی طرح کا کوئی امتیاز برتے۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آزادی کے 67 سال بعد بھی ہم نہ تو ان حدود کی نشاندہی کرسکے ہیں اور نہ ہی یہ طے کرسکے ہیں کہ کن حالات میں ان مطالبات کو بھی قوم دشمنی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جن کی ضمانت ملک کے آئین نے دی ہے۔ دراصل یہی وہ وجہ ہے کہ جب بھی اقلیتیں اپنی تہذیبی، ثقافتی انفرادیت کا حوالہ دیتی ہیں تو ان کو ہر طرف سے گھیر لیا جاتا ہے اور انہیں اس طرح بے بس کردیا جاتا ہے کہ وہ خود کو الگ تھلگ محسوس کرنے لگتی ہیں۔
گزشتہ دنوں آر ایس ایس کے سرسنچالک موہن بھاگوت نے ملک کو ہندو راشٹر قرار دیا ہے۔ یہ لوگ اس سے قبل یہ دعویٰ بھی کرچکے ہیں کہ ’کانگریس کے سیکولرزم‘ سے بہتر ان کا ’سیکولرزم‘ ہے۔ حالیہ پارلیمانی الیکشن میں چونکہ بی جے پی تو اکثریت حاصل ہوئی ہے اس لیے دیکھنا یہ ہے کہ اب یہ کون سا سیکولرزم نافذ کرنا چاہ رہے ہیں، پروین توگڑیا کا یا مہاراج اشوک سنگھل کا۔
ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مذہب کی جڑیں بہت ہی گہری ہیں اور جہاں آبادی کا غیر معمولی طور پر بہت بڑا حصہ نہ صرف یہ کہ مذہب پر یقین رکھتا ہے بلکہ مذہب کو یہ حق بھی دیتا ہے کہ وہ مہد سے لے کر لحد تک ہمہ قسم کی انسانی سرگرمیوں کی باضابطہ بندی بھی کرے، سماج و سیاست کے دائرے سے مذہب کو یقینا دیس نکالا نہیں دیا جاسکتا۔ چنانچہ اس ملک میں ’’سیکولرزم‘‘ کو ایک ایسے تصور کی شکل میں ہی قبول عام کی سند حاصل ہوسکتی ہے جو ریاست کو تمام مذہبی اکائیوں کے ساتھ یکساں سلوک کا پابند بناتا ہو۔ اب ہم ایک ایسے دور میں پہنچ چکے ہیں جس میں ریاست کے اختیارات اور اس کی سرگرمیوں کا دائرہ فرد کی خواب گاہ تک وسیع ہوگیا ہے اور زندگی کا کوئی بھی دائرہ ریاست اور سماج کی پہنچ سے دور نہیں رہ گیا ہے، ایسے میں مذہب کو ریاست، سیاست اور سماج کے دائروں سے دیس نکالا تو ممکن ہی نہیں ہے۔ اور ہندوستان جیسے ملک میں موجودہ حالات میں تو اس کا تصور بھی محال ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مذہب کے دائرے کو بہت دور تک پھیلایا نہیں جانا چاہئے اور نہ ہی مذہب کو اتحاد کے بجائے انتشار و خلفشار کا ذریعہ ہی بنانا چاہئے۔ وہ لوگ جو مذہب کو ہندوستانی سماج کو پھاڑنے کا دریعہ بنا رہے، ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے پر اتارو ہیں، گلستان ہند کے ہر پھول کو مرجھا دینے کی زہریلی ہوائیں چلا رہے ہیں انہیں نہ تو صحیح معنوں میں محب وطن ہی کہا جاسکتا ہے اور نہ انہیں مذہب پر ہی حقیقی معنوں میں کاربند کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی ہندوستانی سماج کا بہی خواہ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مذہب کو اپنے مفاداتِ حاصلہ کا آلۂ کار بنا رہے ہیں اور اس طرح مذہب کو وہ رسوا کرنے اور ہندوستانی سماج کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ لوگ خواہ کسی بھی لیبل کے ساتھ سامنے کیوں نہ آئیں ان کے حقیقی چہروں کو پہچانا جائے اور کسی بھی طور پران کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے۔
٭٭٭