ممبئی ۔ہندوستان کے معروف گلوکار اور موسیقار روپ کمار راٹھور کا خیال ہے کہ گیتوں اور نغموں میں بھدے اور بھونڈے الفاظ کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔روپ کمار راٹھور کلاسیکی موسیقی کے اہم ستون تسلیم کیے جاتے ہیں۔وہ پنڈت چتربھج راٹھور کے بیٹے اور شرون راٹھور (ندیم شرون کی جوڑی والیشرون ) اور گلوکار ونود راٹھور کے بھائی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے دور میں محبت اور عشق کو خدا مانا جاتا تھا اور آج کل کے گانوں میں عشق کو کمینہ، کتا کہا جاتا ہے جو کہ مجھے برداشت نہیں۔‘ خیال رہے کہ شاہ رخ خان کی فلم ’شکتی‘ میں ایک گیت تھا ’عشق کمینہ۔۔۔‘پہلے وہ سال میں کئی فلموں میں گیت گایا کرتے تھے لیکن رنگ رسیا کے بعد سے ان کا کوئی گیت نہیں آیا ہے انھوں نے مزید کہا: ’عشق کمینہ ہماری ثقافت نہیں ہے۔ ہماری تہذیب میں تو اسے خدا سمجھا جاتا ہے اور آج بھی جب کسی کو اپنے دل کی بات کہنی ہوتی ہے تو وہ غزل یا نظم کا سہارا لیتے ہیں۔‘راٹھور کو امید ہ
ے کہ جلد ہی غزلوں کا دور واپس آئے گا حالانکہ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ غزلوں کا دور نہیں ہے۔
آج کل کے زیادہ سے زیادہ گیت نوجوانوں کے لیے ہی بنتے ہیں جو کہ صرف انھیں ہی لبھاتے ہیں۔ غزلیں سننا لوگ پسند نہیں کرتے۔‘وہ کہتے ہیں: ’اگرچہ کئی گلوکار ہیں جو بہت اچھا گاتے ہیں جیسے ارجیت سنگھ، امت ترویدی لیکن موسیقی کے نئے ذرائع اور سازوں کی وجہ سے تمام نغمے ایک جیسے ہی لگتے ہیں جو کہ شاید نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔‘روپ کمار سٹیج شوز کی وجہ سے بہت مصروف رہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے فلموں میں گانے سے بہتر سٹیج شوز ہے جہاں آپ کا مداح سے براہ راست سامنا ہوتا ہے۔وہ مزید کہتے ہیں: ’آپ کا اپنے مداح کے ساتھ ایک قسم کا ربط ہو جاتا ہے اور آپ کو پتہ چل جاتا ہے کہ کیسا پرفارم کر رہے ہیں۔
وہیں فلموں میں بند کمرے میں گیت گانا ہوتا ہے اور ساتھ ہی آج کل کی میوزک کمپنیاں بھی غزلوں کو سپورٹ نہیں کرتیں۔‘روپ کمار نے غزلوں کا ایک پروگرام ریڈیو پر بھی پیش کرنا شروع کیا ہے اور انھیں امید ہے کہ غزلوں کا دور ایک بار پھر سے واپس آئے گا۔