لکھنؤ(نامہ نگار)آصفی امامباڑے کا تالا کھلوانے کے بعد چھوٹے امامباڑے کا تالا کھلوانے میں انتظامیہ کی کوششیں ناکام رہیں۔ مسلسل دوسرے دن اتوار کو بھی ضلع انتظامیہ کے افسر چھوٹے امامباڑے کا تالا کھلوانے کیلئے خواتین سے درخواست کرتے رہے۔ سنیچر سے خواتین کو منانے کا سلسلہ اتوار کو بھی جاری رہا لیکن خواتین اپنے مطالبات پر بضد رہیں۔
اس درمیان چھوٹے امامباڑے کے نزدیک بڑی تعداد میں پولیس فورس جمع ہونے پر ہڑتالی خواتین امامباڑے کے گیٹ پر مٹی کا تیل اور مشعلیں لے کر جمع ہو گئیں۔ خواتین نے زبردستی تالا کھلوانے کی کوشش پر خودسوزی کا انتباہ دیا۔ جس سے انتظامیہ کے سامنے صورتحال پیچیدہ ہو گئی۔ انتظامیہ کی اپیل پر مولانا سید کلب جواد نقوی نے شام ۶بجے خواتین سے گفتگو کر کی تالا کھلوانے کی بات کہی لیکن افطار کا وقت ہونے کی وجہ سے خواتین سے گفتگو کیلئے شب۹ بجے کا وقت مقرر کیا۔ رات دس بجے کے بعد امامباڑہ پہنچے مولانا نے کہا کہ چھوٹے امامباڑہ کا تالا کھولنا یا نہ کھولنا خواتین ہی طے کریںگی۔ انہوںنے کہا کہ وقف بورڈ کی سی بی آئی جانچ نہ ہونے پر ہم عدالت کی پناہ لیںگے۔ انہوںنے کہا کہ دوشنبہ کو عدالت کے فیصلہ کے بعد علماء، وکلاء اور ہڑتالی خواتین کے ساتھ جلسہ کر کے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیاجائے گا۔دوپہر میں بڑی تعداد میں پولیس فورس کی تعیناتی پر انہوںنے سخت رخ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ اس طرح کی کارروائی سے کیا ظاہر کرنا چاہتا ہے۔
ہائی کورٹ میں آج دینا ہے جواب
ایک طرف جہاں خواتین امباڑے کا گیٹ کھولنے کو تیار نہیں ہیں وہیں انتظامیہ کے پاس صرف دوشنبہ تک کا وقت ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں مسرت حسین کی عرضی پر گذشتہ منگل کو ہائی کورٹ نے ضلع مجسٹریٹ کو دونوں امامباڑوںکے تالے فوراً کھلوانے کا حکم دیا تھا اس پر ۴۸گھنٹے گزر جانے پر تالا نہ کھلنے کیلئے مسرت حسین نے عرضی داخل کر کے دو دن بعد بھی تالا نہ کھلنے پر جواب طلب کیا تھا۔ اس کے بعد مولانا سے بات چیت کے بعد انتظامیہ نے ضلع مجسٹریٹ کی قیادت میں بڑے امامباڑے کے تالے کھلوا دیئے تھے لیکن چھوٹے امامباڑے کا تالا نہیں کھل سکا۔ انتظامیہ نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر کے دوشنبہ تک امامباڑوں پر پڑے تالے کھلوانے کیلئے وقت مانگا تھا۔