زمین اپنی ساڑھے تین ارب سال کی تاریخ کے چھٹے سب سے بڑے اختتامی مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔یہ خطرناک حقیقت پرسٹن، اسٹین فورڈ، برکلے اور میکسیکو یونیورسٹی سمیت بڑی تعداد میں یونیورسٹیوں میں کی گئی ایک اہم تحقیق کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔
اس تحقیقی رپورٹ میں زمین پر پڑنے والے انسانی اثرات کی کہیں زیادہ خطرناک تصویر پیش کی ہے۔زمین پر حیاتیات کے خاتمے کی وجوہات میں موسمیاتی تبدیلی، بڑھتی ہوئی آلودگی اور جنگلات کاختم ہونا شامل ہیں۔
اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ زمین پر حیاتیات کے خاتمے میں سب سے پہلے انسان کا وجود مٹ سکتا ہے۔اس لیے کہ ریڑھ کی ہڈی والے حیوانات کے خاتمے کی شرح معمول سے 114 گنا تیز ہے۔
یاد رہے کہ بڑے پیمانے پر حیاتیات کے خاتمے کا آخری ایسا واقعہ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے پیش آیا تھا، تب ڈائینوسارز اس سیارے سے نابود ہو گئے تھے۔
مطالعہ میں خبردار کیا گیا ہے کہ شہد کی مکھیوں کی نوع تین نسلوں میں ختم ہوسکتی ہے۔
ایک سائنسدان گیراڈو سےبالوس کا کہنا ہے، ’’اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو زمین پر زندگی کے دوبارہ نمودار ہونے میں کئی لاکھ سال لگ جائیں گے اور انسانوں کے بھی ابتدائی دور میں ہی ختم ہونے کا امکان ہے۔‘‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 1900ء سے اب تک ریڑھ کی ہڈی والے حیوانات کی 400 انواع کا خاتمہ ہوچکا ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اتنا بڑا نقصان عام طور پردس ہزار سالوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔
اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر پال ایئرلچ کہتے ہیں’’ہم جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹ رہے ہیں۔‘‘
فطرت کے تحفظ کی بین الاقوامی یونین کا کہنا ہے کہ ہر سال حیوانات کی کم سے کم 50 انواع اپنے خاتمے کے نزدیک آجاتی ہیں۔