محمد حامدسراج
hamidtaliker@gmail.com
ذوقی۔۔۔ لے سانس بھی آہستہ۔۔۔۔۔۔۔
میر تقی میر نے تو کہا کہ
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا
لیکن ہم نے یہ ناول سانس روک کے پڑھا۔۔۔۔ کبھی کبھی قدرت کے آگے ہم بے حد کمزور ہو جاتے ہیں اور۔۔۔۔ سپر ڈال دیتے ہیں ناول شروع کیا تو ناول کے کرداروں نے کہا کہ ہم اسی زمین کے باسی ہیں لیکن دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ تم اس تیزی سے اپنی دانش کی کھڑکیاں کھول کر اس ناول کو پڑھ سکتے ہو ہمارے ساتھ وقت گزارو۔۔۔ نہیں تو اسے بند کر کے کوئی اور کام کر لو۔ اس ناول میں ایک مقام ایسا آنے والا ہے جہاں تمہارے وجود اور روح کی دھجیاں اڑ جائیں گی۔ تمہارے اندر سوالات کے زہریلے ناگ پھن اٹھائے تم سے جواب مانگیں گے۔ سامنے زہر ہو گا اور ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں۔ ایک اندھی غار۔۔۔ ایک خوفناک ترین سچ۔۔۔ جسے ذوقی نے ناگ کے زہر سے لکھا ہے۔ تم ایسی زہریلی تحریر کو نہیں جھیل سکو گے۔ ناول کا کردار نور محمد نہ تمہیں سونے دے گا نہ جاگنے۔ دیکھو۔۔۔۔
ذوقی کیا کہتا ہے “انتظار کیجئے اس بے حد بے رحم وقت میں ‘ میں آپ کو ایک ایسی ہی بے رحم کہانی یا کردار سے ملانے جا رہا ہوں۔ ممکن ہے جسے سننے لئے آپ کے کان آشنا نہ ہوں یا جسے محسوس کرنے کے لئے آپ کے دل کی حرکتیں رک جائیں۔ یا جسے آنکھوںکے پردے پر دیکھنے کی عجلت آپ کی آنکھوں کی بینائی چھین لے۔۔۔۔ لیکن اس کے لئے آپ کو تھوڑا سا انتظار کرنا ہو گا۔” پروفیسر نیلے سے میری ملاقات رہی ہے۔ اس کی دانش پر میں نے اس سے بحث کی ہے۔ وہ of Civilizations Clash کی بات کرتا ہے۔ 1947 کی خوں ریز قیامت کے بعد جب دونوں اطراف منظر نامہ بدلا۔پرانی حویلیاں ” گھر ” انسانی جسم اور عزتیں جہاں مسمار ہوئیں وہاں اخلاقی اقدار ‘ تہذیب وتمدن اور تہذیبی ورثے بھی مر مرا گئے۔ اک نئی دنیا ‘ نیا طوفان ‘ نئی سوچ ‘ مادی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان اخلاقی طور پر پستیوں کی جانب نکل گیا جہاں گہرے اندھے غار تھے۔ تخلیق کار تم نے سچ کہا خلافت تحریک سے اور آزادی تک تہذیبیں ہماری پرورش کر رہی تھیں یا پھر آزادی کے بطن سے ایک نئی تہذیب سانس لینے والی تھی ایک ڈراونی تہذیب ۔۔۔ !
یہاں سے ناول ٹریک پکڑتا ہے۔ جیسے ریل پلیٹ فارم سے چھوٹتی ہے تو دونوں اطراف کے منظر پل پل بدلتے ہیں اور مسافر ریل کے ڈبے میں بیٹھا سوچتا ہے۔ کیا سوچتا ہے ؟ یہاں ناول نگار نے پاک و ہند کی پارٹیشن کو ٹچ کیا ہے۔ اور کروڑں انسانوں کے اذہان میں کلبلاتے ابلتے ڈستے سوچ کے کیڑوں کو زبان دی ہے لیکن اہم بات کہ اس نے ان تمام نالوں اور ” کہانیوں اور افسانوں سے ہٹ کر بات کی ہے جو اس موضوع پر لکھے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر بات قدرت اللہ شہاب کے شہرہ آفاق افسانے “یا خدا” کی ہو ‘ افسانے کے بے تاج بادشاہ منٹو کے “ٹوبہ ٹیک سنگھ کی لیکن ذوقی نے اپنی توجہ اصل موضوع پر مرکوز رکھی ہے اور پارٹیشن کو ایسے ہی ٹچ کیا ہے جیسے ٹرین کے مسافر نے چلتی ٹرین سے منظر دیکھا اور وہ گزر گیا۔ ایک حویلی ہے۔۔۔ حویلی میں ابا ہیں ” اماں ہیں۔۔۔ گھر کے افراد۔۔۔ ہمسائے میںجو حویلی ہے وہاں نور محمد ہے اس کی ماں جس پر جنات کا سایہ ہے۔۔ایک عامل ہے۔۔۔ توہمات کی دنیا کی جڑیں بر صغیر کی سائیکی میں گڑی ہیں۔ آپ ہزار کوشش کر دیکھئے۔یہ جنات نہ کسی عامل سے نکلیں گے نہ کرہ ارض کے کسی سائیکاٹرسٹ سے ! میں سچ کہہ رہا ہوں۔ ذوقی بھی سچ کہہ رہا ہے۔۔۔ “لے سانس بھی آہستہ۔۔۔۔” بھی اسی سچ کا امین ہے۔اس کے ساتھ تو جعلی اور اصلی عاملوں کی روزی روٹی کا سلسلہ جڑا ہے۔ اگر جنات نکل گئے۔ تو پھر ہماری بھولی معصوم عوام کے پاس کیا رہ جائے گا۔وہ کس موضوع پر بات کریں گے۔ وہ کس چوکھٹ پر سر جھکائیں گے۔ عورتیں کچر کچر باتیںکیسے کریں گی۔ ہماری تو چوپالیں ویران ہو جائیں گی۔ جی جی۔۔۔۔ توہمات کے اس موضوع کو ذوقی نے کمال پینٹ کیا ہے۔ مجھے نوبل انعام یافتہ ادیب نجیب محفوظ یاد آ رہے ہیں جنہوں نے مصری معاشرے میں توہمات اور انسانی نفسیات میںگڑی خوف کی جڑیں تلاش کر کے لازوال افسانے تراشے۔ حویلی کا طویل باب اور اس میں ہونے والے حالات و واقعات ‘ روز مرہ ‘ کج بحثی ‘ اماں بابا کی لڑائی ‘ حویلی سے رخصت ہوتی تہذیب ‘ اجڑتی حویلیوں کی جگہ اگنے والے پلازے اور نئی دنیا کی چمک دمک اور پرانے لوگوں کی اپنی مٹی اپنے گھر کی دیواروں ” اینٹوں کی درزوں تک سے وابستگی کا دکھ ‘ کرب ‘ اذیت۔۔۔۔۔ سب ناول نگار نے اپنے قلم سے امر کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسا باب ہے جو قاری سانس روک کر مطالعہ کرتا ہے۔ اسی دوراں اس قدیم حویلی میں اماں کا ایک بھائی سفیان ماموں اچانک پاکستان سے بن اطلاع پہنچ جاتا ہے اس کے ساتھ اس کی معصوم بیٹی نادرہ ہے جس کے ہاتھ میں نازک چوڑیاں۔۔ گورا رنگ۔۔ لمبا چہرہ شلوار اور جمپر پہنے ! جس کی ماں کو پاکستان میں اجل نے آ لیا اور وہ اپنے باپ کے ساتھ ہندستان چلی آئی۔۔۔۔ جی یہی نادرہ ہے جس سے آپ کو مانوس ہونا ہے۔ یہ بہت اہم کردار ہے اور نور محمد۔۔۔۔۔ حویلی کا واحد متکلم ‘ اماں کا بیٹا نادرہ سے دن بہ دن مانوس ہو تا جا رہاہے اور پھر کچھ عرصہ میں گرم خون اور کچے بدن کی مہک سے دونوں حیران اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ عامل۔۔۔ جی عامل جو نور محمد کی ماں کے جن تو نہ نکال سکا اماں ابا کی حویلی میں خزانے کا پتہ دے کر وہاں اپنے چمتکار دکھاتا ہے۔
یہاں کہانی ایک کروٹ لیتی ہے اور ایک روز اماں محلے کی شکایتوں طعنوں سے تنگ آ کر کوتوالی جا نکلتی ہے۔ عورت جو ایک گھر سے دوسرے گھر پالکی میں جایا کرتی تھی اس کا ننگے سر کوتوالی کے ہرکاروں پر گرجنا برسنا تہذیب کی بہت بڑی کروٹ کا پتہ دیتا ہے۔ قدروں کی دراڑیں جو خلیج میں بدل چکی ہیں۔ زوقی کی بات بھی تو ہم سن لیں۔۔۔۔ کیا کہے گا محمد حامد سراج اپنی ہانکے جا رہا ہے۔ اسے معلوم ہے حامد سراج نقاد ہے نہ پیشہ ور دیباچہ نگار مضمون نگار۔۔۔ وہ تو بس قاری ہے۔۔۔۔ اپنے احساسات کو زبان دینے کی کوشش کر رہا ہے۔۔۔جی جی۔۔۔ ذوقی۔۔ آپ کہئے “وہ ماضی جو آپ کو بیمار کر جائے اسے پھینکنا ضروری ہوتا ہے ساتھ لے کر چلنا نہیں۔ کیا ہم نہیں لٹے تھے۔ گھر بار جاگیریں سب کچھ چھوڑ کر پاکستان جانے کا فیصلہ کیا کوئی عام فیصلہ تھا۔لیکن حقیقت کو سمجھ رہے تھے کہ اب وہ ملک نہیں ہے۔۔۔ دو ٹکڑے ہو گئے ہیں ملک کے۔ اور اس طرح حویلیوں جاگیروں کے بھی ہزار ٹکڑے ہو گئے ” تہذیبوں کی شکست و ریخت سے گزرتے ذوقی ایک ایسی سچائی اور تلخ ترین حقیقت کی طرف جا رہے ہیں جہاں قاری بینائی سے محروم ہو جاتا ہے۔اب اس باب پر لکھنا میرے لئے بھی مشکل ہو رہا ہے۔ اردو ادب کا عام قاری یہاں کس کرب سے گزرے گا مجھے اندازہ ہے۔ Point Turning میرے سامنے ہے۔ حویلی کے ابا دنیا سے گزر گئے۔ اور اچانک اس بڑا حادثہ ہوا کہ نادرہ جس کے کچے بدن کی مہک واحد متکلم کی سانسوں میں رچی تھی وہ پکے ہوئے بیر کی مانند نور محمد کی جھولی میں جا گری۔
حصہ سوم ! نیا انسان۔۔۔۔۔ وہ پیدا ہو چکا ہے اور یقین مانو وہ پیدا ہو چکا ہے .
تمہاری اس دنیا میںتیر کمان اور بھالوں سے الگ کی اس خطرناک دنیا میں جس کے لئے تم انتہائی مہذب ہو نے کی دہائیاں دیتے ہو وہ پیدا ہو گیا ہے کینسر اور ایڈذ جیسی بیماریوں کے عہد میں جہاں گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں سائبیریا کے برفیلے علاقوں میں گھاس اگنے لگی ہے۔ موسم کا مزاج بدل چکا ہے وہ پیدا ہو گیا ہے کون پیدا ہو گیا ہے۔۔۔۔۔؟ نیا انسان۔۔۔۔؟ کون سا نیا انسان۔۔۔۔؟ یہ تعمیری انسان نہیں ہے۔ یہ تہذیب یافتہ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا انسان ہے جو ایڈز اور کینسر سے بد تر ہے۔ جو زمین کا کوڑھ ہے۔۔۔۔ ایسا جذام۔۔ ایسا انسان جس کے وجود سے انسانیت ‘ تہذیب ‘ زمین سب گل سڑ کر تباہ ہو جائیں گے۔ نور محمد کی شادی نادرہ سے ہو گئی ہے۔ اس کی ایک اپاہج بیٹی پیدا ہو گئی ہے۔ نادرہ مر گئی ہے۔۔۔ اکیلا گھر ہے۔۔۔۔۔ اپاہج بیٹی۔۔۔۔ یہاں قلم رک جاتا ہے۔۔۔ قلم کی نوک ٹوٹ جاتی ہے۔ انسانیت کے چیتھڑے اڑ جاتے ہیں۔
ذوقی نے چوتھا باب “جبلت” کے عنوان سے باندھا ہے یہاں سب کچھ ہے بے حد سنگین ہے اور موت دبے پاوںہمارا پیچھا کر رہی ہے جنگ ہر بار ایک اپاہج معاشرہ جنم دیتی ہے دھماکہ ہونے والا ہے لیکن یہ نئی تہذیب کا دھماکہ ہے اس باب میںجبلت کا زہر ہے جو انسان کو انسانیت کی معراج سے اتار کر ذلت کی پستیوں اور حیوانی سطح پر لا کھڑا کرتا ہے۔ انسان مکمل حیوان کے روپ میں۔۔۔ زمین پر عذاب بن جاتا ہے۔ ذوقی سوال یہ ہے کہ مان لیا۔۔۔۔ سیکس کا کاروبار کرنے والوں نے انسان کو حیوان بنا ڈالا۔۔۔۔ ماں باپ ‘ بیٹی ‘ بہن بھائی ‘ خالہ ‘ ممانی ‘ چچا ‘ سب مقدس رشتے مٹی میںملا کے انہیں غلاظت میں لا پھینکا۔۔۔۔۔ پچھلے دنوں پاکستان کے کثیر الاشاعت “اردو ڈائجسٹ” میںپاکستانی چینلز پر چلنے والے ترکی ڈراموں پر روح فرسا مضمون پڑھا کہ ان ڈراموں میں محبت اور سیکس کے حوالے سے مقدس ترین رشتوں ماموں بھانجی ‘ چچا بھتیجی ‘ بھابی کی حرمت کا پامال ہونا زمین پر انسانیت کے لئے موت کا پیغام ہے۔ آپ نے اس موضوع کو بولڈ ہو کر لکھا
لیکن اردو ادب کے قاری کو مشکل میں ڈال دیا۔ بہت زیادہ مشکل میں۔ ایک نہ ہضم ہونے والا ناول۔۔۔۔ آخری باب نے مجھے جھنجوڑ دیا۔۔۔ میںآپ پر برہم تھا۔۔۔۔ ایک دوست کی حیثیت سے ایک بھائی کی حیثیت سے ‘ ایک قاری کی ناطے۔۔۔۔ کہ ذوقی یار یہ تو بتاوکہ اس ذلت کے اندھے غار کو تم نے اختتام پر کیسے سمیٹا۔۔۔۔ کیا ایسا بھی ممکن تھا جو تم نے کہا۔۔۔”میں مسکرا رہا تھا۔۔۔ تہذیبیں ہر بار اپنا بھیس بدل دیتی ہیں۔۔کبھی بھیانک سطح پر اور کبھی۔۔۔۔” میں الجھ گیا۔۔۔ میرے اندر سولات کا جنگل اگ آ یا۔۔۔۔ میں راستہ بھٹک گیا۔۔۔ میں نے تم سے اختلاف کیا۔۔۔۔ اس موضوع کو پینٹ کرنا ضروری تھا کیا۔۔۔۔۔ کوئی دائرہ تو بنایا ہوتا۔۔۔۔۔ سب دائرے سے باہر چوراہے پر لا پھینکا تم نے دوست۔۔۔۔ ! میں پھر پلٹا۔۔۔۔۔ تمہاری آخرمیں دعا دیکھی “سب کچھ ختم ہو چکا ہے یہاں پرانی نشانیاں تلاش کرنے والے لوگ بھی نہیں سب کچھ ختم ہو چکا ایک بھیانک سیلاب یا ایک بھیانک تباہی یہاں سب کچھ ہالی وڈ کی فنتاسی کی دنیا سے کہیں زیادہ بھیانک ہے میں نے ناول کو ایک بار پھر پڑھا۔۔۔۔ سمجھا اس سے بحث کی۔۔۔۔۔ الجھا۔۔۔۔ میں غار کے زمانے کا قاری ہوں۔۔۔ مجھے تخلیق اتنی آسانی سے مطمئن نہیں کر پاتی۔۔۔۔ مجھ سے جھوٹ نہیں بولا جاتا۔ ذوقی میںنے ناول کو مکرر کھنگالا۔۔۔۔ تم نے نئی تہذیب کے جنم کی بات نہیں کی تم نے ایک بھیانک سیلاب ایک بھیانک تباہی کی بات کی ہے۔۔۔۔۔۔ تم نے سچ کہا۔۔۔۔۔ “سب کچھ ختم ہو چکا ہے” سب کچھ لیکن ذوقی۔۔۔۔ یہ ناول عام قاری کو ہضم نہیں ہو گا ۔کیا نقاد کا قلم اس کے نشتر سہہ پائے گا۔۔۔۔ “سب کچھ ختم ہو چکا ہے ” لیںَ سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام۔۔۔۔۔