لندن: انسانوں کی اکثریت سانس لینے کے درست طریقے سے ناواقف ہے اورپھیپھڑوں کی ایک تہائی جگہ ہی سانس سے بھرتی ہے اور اس کی عادت سی بن جاتی ہے لیکن اب ماہرین سانس کی ایسی آ سان مشقیں بتارہے ہیں جن سے تھکاوٹ، کمر، گردن کے درد اور سستی کو دور کیا جاسکتا ہے۔
غیر معمولی آ ہیں بھرنا:
غیر معمولی طور پر آ ہیں بھرنا اکثرلوگوں کی عادت بن چکی ہوتی ہے لیکن اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ آ پ کو سانس روکنے کی عادت ہوگئی ہے۔
بہت سے لوگوں کو اکثر اوقات جمائیاں آ تی ہیں، محفلوں میں بیٹھے یا دن کے اوقات میں بھی جمائیاں لیتے ہیں جب کہ اس کی اہم وجہ کم گہرائی سے سانس لینا ہے کیونکہ حالتِ سکون میں آ پ ایک منٹ میں اوسطاً پانچ سے آ ٹھ مرتبہ سانس لیتے ہیں لیکن کم گہرے سانس لینے والا کوئی شخص اپنے سینے سے ۱۰ سے ۲۰ مرتبہ ہی سانس لیتا ہے۔
جو لوگ درست انداز میں سانس نہیں لیتے ان میں خوامخواہ دانت پیسنے کی عادت ہوجاتی ہے، شدید دباو¿ کے شکار یا کسی ذہنی عارضے میں مبتلا افراد کی اکثریت ایک جانب تو کم گہرے سانس لیتی ہے تو دوسری جانب اپنے دانت کچکچانے کی بری عادت میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
سینے میں کم گہرے سانس لینے سے کمر، گردن اور بازوو¿ں کے پٹھے اکڑ جاتے ہیں اور ان میں درد ہونے لگتا ہے۔
ہمیشہ تھکاوٹ کی شکایت کرنا:
غلط اندازسے سانس لینے سے ہمیشہ تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے اوراس طرح سانس لینے کی تین اہم وجوہ میں غذا، آ سیجن اور پانی کا درست انداز میں استعمال نہ ہونا بھی شامل ہے اسی لیے پھیپھڑے بھر کر سانس لیا جائے تو بہتر ہوتا ہے اس کے علاوہ مصروف لوگ ہونٹوں کو کھول کر منہ سے سانس لینے کی کوشش بھی کرتے ہیں جس سے منہ خشک ہوجاتا ہے اور یوں تھکاوٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔
تنفس پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹرز مشورہ دیتے ہیں کہ درج ذیل مشقوں کو ہفتے میں ۳ مرتبہ کیا جائے اور ۳ ہفتوں تک اسے جاری رکھا جائے تو درست انداز میں سانس لینے کی عادت ہوجاتی ہے اور جسم پر اس کے بہترین اثرات مرتب ہوتےہیں۔ماہرین کا کہنا ہےکہ سب سے پہلے ناک کے ذریعے دھیرے دھیرے اور گہرے سانس لینا سیکھیں اور اسے سینے کی بجائے اتنی اندر تک لے جائیں جہاں پیٹ اور سینہ آ پس میں ملتا ہے اس جگہ کو ڈایافرام کہاجاتا ہے اس کے لیے ایک مشق کریں کہ فرش پر آ لتی پالتی مار کر بیٹھ جائیں یا پھر کسی کرسی پر بیٹھ کر کمر سیدھی رکھیں، جسم کو ڈھیلا چھوڑتے ہوئے کندھوں کو آرام کی صورت میں رکھتے ہوئے ناک کے ذریعے گہرے سانس لیں اور اسے نوٹ کرنے کے لیے نچلی پسلیوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے گہرے سانس لیں اور نوٹ کریں کہ پیٹ آ گے جائے جبکہ پسلیاں اطراف میں حرکت کریں۔ سانس لیتے دوران سینے، کندھوں اور پیٹ کی حرکات کو نوٹ کریں، اب آ نکھیں بند کرکے اپنے اندر کی جانب توجہ دیں اور اندر سانس لیں اس طرح سانس لیتے وقت آ نکھیں بند اور باہر خارج کرتے وقت آ نکھیں کھولیں اس سے مشق میں بہتری پیدا ہوگی۔
اس کے لیے کمرکا اوپری حصہ سیدھا کریں، کندھوں کو آ گے اور پیچھے جھکائیں، اپنے بازوو¿ں اور ہاتھوں کو ڈھیلا اور آرام دہ پوزیشن میں لائیں، زبان کو منہ کے تالو سے لگادیں، بیٹھے رہنے کی صورت میں ٹھوڑی کو اتنا اٹھائیں کہ وہ فرش کی سیدھ میں آ جائے، سانس کو گہرا اور گہرا کریں، سانس لینے کا عمل اس طرح لمبا کریں کہ پیٹ کمر کی جانب دبے اور دوران ڈایافرام کو نوٹ کرتے رہیں، یہ مشق جاری رکھیں اور کبھی گہرے اور کبھی کم گہرے سانس لیں۔
روزانہ صبح اٹھ کرسانس لینے کا انداز نوٹ کریں، سانس لیتے وقت ایک سے ۵ تک گنتی گنیں اور اسی طرح سانس باہر نکالتے وقت بھی اتنی مرتبہ شمار کریں،اس طرح پورے دن سانس لینے کی عادت برقرار رہے گی۔
اگر آ پ بہتر توجہ اورسکون چاہتے ہیں تو اس کے لیے یوگا کی ایک مشق موجود ہے جس میں باری باری ایک نتھنے کے ذریعے سانس لے کر دماغ کےدونوں حصوں کو متوازن کیا جاتا ہے جن میں تخلیق اور احساسات والا دماغ کا دایاں حصہ اور منطق والا بایاں حصہ شامل ہے، اپنے سیدھے ہاتھ کے انگوٹھے سے دایاں نتھنا دبائیں اور چار تک گنتی گنتے ہوئے سانس اندر لیں، اب بایاں نتھنا سیدھی ہاتھ کی پہلی انگلی سے بند کرکے ۴ تک گنتی گنتے ہوئے سانس باہر نکال دیں، یہ عمل باری باری دونوں نتھنوں سے آ زمائیں اور ۶ مرتبہ د±ہرائیں اس طرح پورے دماغ میں سانس جاتی ہے اور فوری سکون اور راحت کا احساس ہوتا ہے۔